Maktaba Wahhabi

39 - 413
میں ہیں اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے ان پر کلام کیا ہے۔ علامہ ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہ نے صید الخاطر (245)میں ،علامہ الزرکشی رحمۃ اللہ علیہ نے النکت میں اور علامہ عراقی رحمۃ اللہ علیہ نے التقیید والایضاح میں مسند کی مرویات پر کلام کیا ہے۔حافظ ابنِ قیم رحمۃ اللہ علیہ نے الفروسیہ میں[1] اس پر بڑی مفصل نفیس بحث کی ہے۔ شیخ ابوغدہ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ ’’ان کے کلام سے ان لوگوں کے موقف کا بطلان ظاہر ہوتا ہے جو کہتے ہیں کہ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے مسند میں جن روایات پر سکوت کیا ہے وہ ان کے نزدیک صحیح ہیں۔ حافظ ابنِ قیم رحمۃ اللہ علیہ نے مسند کی بیس سے زائد احادیث ذکر کر کے دلائل سے ان کا ضعف بیان کیا ہے۔[2] بلکہ شیخ ابو غدہ رحمۃ اللہ علیہ نے قواعدعلوم الحدیث[3] کے حاشیہ میں ہی مولانا عثمانی رحمۃ اللہ علیہ کے موقف کی تردید کی ہے کہ یہ قاعدہ اغلبی ہے ورنہ مسند میں ضعیف ،شدید ضعیف بلکہ ایسی بھی روایات ہیں جنھیں موضوع کہا گیا ہے، نیز دیکھئے الأجوبۃ الفاضلہ[4] مؤلفہ مولانا عبد الحی الکھنوی رحمۃ اللہ علیہ ۔ان حقائق کے علاوہ خود مولانا عثمانی رحمۃ اللہ علیہ کوبھی اس حقیقت کا اعتراف ہے جیسا کہ اوپر ہم نقل کر آئے ہیں اس کے بعد یہ کہنا کہ مسند کی تمام احادیث صحیح یا کم از کم حسن درجہ کی ہیں۔ اور اس کے ضعیف اور مدلس راویوں کی روایات کو اسی بنیاد پر حسن باور کرانا مسلک کی خدمت تو ہو سکتی ہے حدیث کی قطعاً نہیں۔عنقریب آپ ملاحظہ فرمائیں گے کہ خود مولانا صاحب نے مسند کی متعدد احادیث کو ضعیف قرار دیا ہے۔ مسند ابو عوانہ کی احادیث مولانا عثمانی نے عامر بن خارجہ عن ابیہ عن جدہ کی سند سے ایک روایت ابو عوانہ سے بحوالہ التلخیص الحبیر نقل کی، جس کے منکر ہونے کی صراحت حافظ ابنِ حجر رحمۃ اللہ علیہ نے لسان المیزان میں کی ہے۔ جس کے جواب میں مولانا عثمانی رقمطراز ہیں: ((لم یوردہ المحدث أبو عوانۃ فی صحیحہ وھو من أھل الفن إلا
Flag Counter