Maktaba Wahhabi

411 - 413
((أخبرنا علی بن محمد الرازی قال حدثنا عبد اللّٰه بن احمد بن خالد الرازی عن ابی الجواب الاحوص بن جواب قال حدثنا سفیان)) الخ[1] یہ بھی انھی ’’فضیلۃ العلامہ المحدث المحقق الشیخ‘‘ کی تحقیق سے مکتبہ امدادیہ سے شائع ہوئی، یہاں سرے سے زریا زربی کا نام ہی نہیں، اور ابن خسرو نے قاضی الاشنانی کی سند سے ہی یہ روایت ذکر کی اور اس میں بھی ’’عبد اللہ بن احمد بن خالد الرازی‘‘ ہے۔ جامع المسانید میں اس کی بجائے ’’احمد بن محمد بن خالد‘‘ ہے جس کو احمد بن خالد بنانے کا تکلف مولانا عثمانی نے کیا ہے اور علی بن محمد البزاز کی جگہ مسند ابن خسرو میں علی بن محمد الرازی ہے۔ لہٰذ امولانا عثمانی نے جامع المسانید میں جو علی بن محمد البزاز کی توثیق کی زحمت فرمائی وہ بھی بیکار ثابت ہو رہی ہے۔ اس تقابل اور وضاحت سے اس سند کی پوزیشن ظاہر ہو جاتی ہے مولانا عثمانی کا اسے ’’اسناد صحیح‘‘ کہنا محض اطمینان کی کوشش ہے۔ راوی کی تعیین میں عجیب غفلت یہاں یہ دلچسپ بات بھی ملاحظہ فرمائیں کہ مولانا عثمانی قاضی عمر بن الحسن الأشنانی کی سند کی تصحیح میں راویوں کی توثیق بیان کرتے ہوئے عمر بن الحسن کے استاد علی بن محمد البزازکے بارے میں فرماتے ہیں: ((وعلی بن محمد البزاز أبو القاسم المعروف بابن التستری ذکرہ الخطیب فی تاریخہ وقال کتبت عنہ کذافی جامع المسانید(258/2) ))[2] اولاً: عرض ہے کہ جامع المسانید کا محولہ صفحہ 258درست نہیں یہ دراصل صفحہ 528ہے بلکہ
Flag Counter