Maktaba Wahhabi

271 - 413
انھی اقوال کے نتیجہ میں علامہ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے: ((ترکہ أبو داود والنسائی وضعفہ غیرھما)) [1] ’’اسے امام ابوداود رحمۃ اللہ علیہ اور نسائی رحمۃ اللہ علیہ نے متروک اور دیگر حضرات نے ضعیف کہا ہے۔‘‘ امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایاتھا: ’’وہ زہاداہلِ بصرہ سے ہے مگر شیخین نے اس سے روایت نہیں لی۔‘‘ علامہ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے اس پر تعاقب کیا کہ وہ ’’متروک‘‘ ہے۔[2] حافظ ابنِ حجر رحمۃ اللہ علیہ نے تقریب[3] میں اسے ’’ضعیف قرار دیا ہے۔ جس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی ترمذی وغیرہ میں روایت صالح کی وجہ سے ضعیف،بلکہ منکر ہے،کیونکہ یہ روایت قتادہ سے ہے اور قتادہ سے اس کی روایات منکر ہیں جیسا کہ تاریخ بغداد کے حوالے سے اوپر ہم ذکر کر آئے ہیں۔اور حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ کی روایت میں مقدام بن داود اس درجہ کا قطعاً راوی نہیں کہ اس کی روایت شواہد ومتابعت میں قبول کی جائے اس لیے یہ روایت بہر نوع ضعیف بلکہ منکر ہے۔ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ کاغریب کہنا مولانا عثمانی نے اسی بحث میں یہ بھی فرمایا ہے: کہ ’’امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے اسے صرف غریب کہا ہے اور زرارۃ سے مرسلاً ذکر کر کے فرمایا ہے یہ متصل سے اصح ہے اور ترمذی ایسے نہیں ہیں کہ اپنی جامع میں موضوع روایت ذکر کریں۔ اور محدث بے اصل اور موضوع کو ’’أصح‘‘ نہیں کہتا زیادہ سے زیادہ یہ ضعیف ہے۔ مگر تعدد طرق اور مختلف فیہ راویوں کی وجہ سے حسن ہے۔ جیسا کہ مقدمہ میں ہم نے ذکر کیا ہے۔[4] بلاشبہ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے اسے’’غریب‘‘کہا ہے۔ مگر یہ بھی تو دیکھنا چاہیے کہ امام
Flag Counter