Maktaba Wahhabi

89 - 413
حضرت موصوف کا اگر یہ اصول درست ہے توحافظ ابنِ حجر رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی رفع الیدین کی حدیث جس میں ’حتی لقی اللّٰه‘ کے الفاظ ہیں الدرایہ[1] میں نقل کر کے اس پر بھی سکوت کیا ہے ،مگر مولانا صاحب تو اسے موضوع قرار دینے پر ادھار کھائے بیٹھے ہیں۔ بتلائیے اصول کہاں گیا؟ حدیث ’بئر بضاعۃ‘ کے بارے میں جو بعض نے کہا کہ امام ابوداود رحمۃ اللہ علیہ نے اسے ضعیف کہا ہے الدرایہ[2] میں اس کی تردید ہے کہ امام ابوداود رحمۃ اللہ علیہ کی سنن میں ان کا کلام اور ان کے موقف کے برعکس مذہب رکھنے والوں کی تردید اس کی دلیل ہے کہ انھوں نے اسے صحیح کہا ہے۔ علامہ زیلعی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی فرمایا ہے کہ’’ امام ابوداود رحمۃ اللہ علیہ کا اس پر سکوت اس کی دلیل ہے کہ یہ روایت ان کے نزدیک صحیح ہے۔پھر وہ اس کے بعد ایسا کلام لائے ہیں جو اس کی تصحیح پر دال ہے۔‘‘[3] مگر نہ ہی یہاں اپنے اس اصول کی پاسداری ہے اورنہ ہی امام ابوداود رحمۃ اللہ علیہ کی ’’تصحیح ‘‘قابلِ اعتبار ہے۔ جیسا کہ پہلے بھی ہم ذکر کر آئے ہیں۔ امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ اور علامہ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ کا سکوت: مولانا عثمانی رحمۃ اللہ علیہ ’باب أقل النفاس وأکثرہ‘ کے تحت حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کی ایک روایت ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں: ((سکت الحاکم[4] عن رجالہ وکذا الذھبی فکلھم ثقات والحدیث صحیح مع غرابتہ)) [5] ’’اس کے راویوں سے امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ اور علامہ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے سکوت کیا ہے لہٰذا اس کے سب راوی ثقہ اور غرابت کے باوجو د حدیث صحیح ہے۔‘‘ نتیجہ صاف ہے کہ المستدرک میں امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ اور علامہ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ جس پر سکوت کریں
Flag Counter