Maktaba Wahhabi

392 - 413
ام عطیہ رضی اللہ عنہا اور صحابیات ایک عمل عہدنبوی میں کریں اور اس پر بہت سے تابعین و فقہاء فتوی دیں، وہ تو دین نہ بنے، اس کے برعکس حنفی فقہائے کرام کا فتوی دین بن جائے اور پوری اقلیم حنفیت میں اس پر عمل ہو۔ ایک طرف فرمایا جاتا ہے کہ یہ معاملہ زندگی میں عادت کے مطابق ہے اور اس میں توسع ہے۔ دوسری طرف یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اہلِ اجتہاد کا فتوی حجت ہے۔ اب اس ’’حجت‘‘ شرعی کے بعد پہلی رائے کی کیا حیثیت باقی رہ جاتی ہے،مگر یہ ایسی ’’حجت‘‘ ہے کہ بس اہلِ اجتہاد کافرمودہ ہے۔ جب کہ یہ بھی فرمایاگیا ہے کہ مسئلہ ’’قیاسی‘‘ ہے تو کس مقیس علیہ پر قیاس کر کے فقہاء نے یہ فتوی صادر فرمایا ہے؟ کاش حضرت عثمانی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی بھی کوئی چارہ گری کی ہوتی۔ ابنِ حبان کی روایت پر خدشات یہاں یہ بات بھی ملحوظ خاطر رہے کہ حضرت عثمانی رحمۃ اللہ علیہ نے صحیح ابنِ حبان اور سنن سعید بن منصور کی روایت، جس کا ذکر پہلے ہوا ہے، کے بارے میں فرمایا ہے: کہ حافظ ابنِ حجر رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی سند ذکر نہیں کی۔ یہ روایت بخاری ومسلم وغیرہ کی روایت کے مقابلے میں شاذ ہے۔ جس میں صرف فعل کا ذکر ہے حکم کا نہیں۔ ملخصاً[1] حالانکہ خود حضرت موصوف نے قواعدفی علوم الحدیث[2] اور اعلاء السنن میں جابجایہ فرمایا ہے: کہ فتح الباری میں حافظ ابنِ حجر رحمۃ اللہ علیہ جس روایت پر سکوت کریں، وہ صحیح یا حسن ہوتی ہے ،جیسا کہ پہلے ان کا یہ اصول ہم ذکر کر آئے ہیں، سوال ہے کہ یہ اصول صرف انھی روایات کے بارے میں کیوں ہے جو مولانا عثمانی کے مفاد میں ہیں،مگر جب ایسی روایات پر حافظ سکوت کرتے ہیں، جن سے ان کے موقف کی تردید ہوتی ہے، وہ شاذ اور ضعیف کیوں ہو جاتی ہیں؟ جس کی کئی مثالیں ہم پہلے بھی ذکر کر آئے ہیں۔ اعدلوا ھو أقرب للتقوی۔ حافظ ابنِ حجر رحمۃ اللہ علیہ ہی کیا علامہ عینی نے بھی ابنِ حبان رحمۃ اللہ علیہ کی روایت کو تسلیم کیا ہے۔ سنن سعید بن منصور اور ابنِ حبان ان کے
Flag Counter