Maktaba Wahhabi

263 - 413
قارئین کرام! سمجھے آپ، کہ فرمایا گیا: ’’یہ دونوں متکلم فیہ‘‘ ہیں۔ مجال ہے کہ وہ اسے حسن قرار دیں، ابراہیم اسلمی ہی ان کے نزدیک حسن الحدیث نہیں،بلکہ عبد اللہ بن محمد بن عقیل کی حدیث کو بھی اسی جلد[1] میں ’’اسنادہ صحیح‘‘ اورایک جگہ’’ حسن صالح ‘‘قرار دیا ہے۔[2] یاد رہے کہ مولانا عثمانی رحمۃ اللہ علیہ کا محولہ بالا تبصرہ دراصل علامہ ماردینی رحمۃ اللہ علیہ کی الجوہر النقی سے ماخوذ ہے انھوں نے یہ امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ پر نقد کے تناظر میں لکھا۔ اگر مولانا عثمانی رحمۃ اللہ علیہ اسے نقد نہیں سمجھتے تھے تو یہ کہنے کا کیا مقصد کہ ان میں کلام ہے؟ مزید یہ بات بھی معلوم رہے کہ مولانا عثمانی رحمۃ اللہ علیہ کے تلمیذِ رشید ابراہیم اسلمی پر سخت جرح نقل کرتے ہیں اور امام ابن عدی رحمۃ اللہ علیہ نے جو ان کی توثیق وتوصیف کی ہے اسے اپنے استاد کوثری رحمۃ اللہ علیہ کی اتباع میں ابن عدی رحمۃ اللہ علیہ کے تعصب پر محمول کرتے ہیں۔[3] مگر استاد محترم اسے اپنے اصول میں حسن الحدیث قرار دیتے ہیں۔ اگر یہ اصول قابلِ اعتبار ہوتا تو وہ ابراہیم کو سخت مجروح قرار دیتے؟ ساتویں مثال اسی ’’مختلف فیہ‘‘ کے اصول میں یہ بات بھی ملاحظہ فرمائیے کہ مولانا عثمانی نے ’باب ماجاء فی بعض آداب التلاوۃ‘ میں المستدرک سے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث نقل کی جس میں صالح المرّی منفرد ہیں۔ کہ ایک صاحب نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا سب سے اچھا عمل کون سا ہے؟ آپ نے فرمایا: الحال والمرتحل، پھر بطورِ شاہد حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ کی روایت ذکر کی، اور علامہ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ سے پہلی روایت کے بارے میں نقل کیا کہ صالح مری متروک ہے۔ اور دوسری جو اس کی شاہد ہے اس کے بارے میں کہا یہ صحیحین کی سند پر وضع کی گئی ہے۔ مقدام متکلم فیہ ہے اور آفت اسی سے ہے۔ ان کے الفاظ ہیں: ((قال الذہبی فی الأول: إن صالحاً متروک، وقال فی شاہدہ: لم
Flag Counter