Maktaba Wahhabi

102 - 413
ایک اور کوشش: یہاں یہ بھی دیکھئے کہ مولانا صاحب نے یہ بھی فرمایا ہے کہ رکوع سے پہلے قنوت وتر کا ذکر تو ابراہیم سے علقمۃ عن عبد اللہ کی سند سے، بہت سے حضرات کرتے ہیں اس لیے ابان منفردنہیں زیادہ سے زیادہ یہ کہ ’’عبد اللہ عن امہ‘‘ سے روایت کرنے میں منفرد ہے جبکہ متعدد حضرات اسے ابراہیم عن علقمہ سے صرف حضرت عبد اللہ سے روایت کرتے ہیں۔ جیسا کہ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے العلل الصغیر میں کہا ہے،مگر یہ بھی باعث قدح نہیں کیونکہ امام دارقطنی رحمۃ اللہ علیہ نے سنن میں اسے بواسطہ ابان، حضرت عبد اللہ ہی سے روایت کیا ہے۔‘‘[1] مگر پہلی بات تو یہ ہے کہ امام دارقطنی رحمۃ اللہ علیہ نے ہی اس روایت کو ذکر کرنے کے بعد صراحت کی ہے کہ ابان بن ابی عیاش متروک ہے۔[2] مگر مولانا صاحب نے اس طرف التفات ہی نہیں فرمایا۔ ثانیاً: ابان سے یہ روایت یزید بن ہارون اور سفیان ثور ی روایت کرتے ہیں جبکہ ابراہیم کے (ابان کے علاوہ )دیگر شاگرد بھی اسے صرف حضرت عبد اللہ ہی سے روایت کرتے ہیں۔تو اسی روایت کو ذکر کرنے میں مولانا نے اکتفاء کیوں نہیں کی۔ جماعت کے برعکس جو روایت ابان نے بیان کی اس کی تحسین میں فکر مند کیوں ہیں؟ ثالثاً: امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے جس انداز سے اس کی تردید کی افسوس کہ مکمل طور پر مولانا صاحب نے ان کی ترجمانی نہیں کی۔ چنانچہ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: کہ امام ابو عوانہ وضاح بن عبد اللہ فرماتے ہیں جب امام حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کا انتقال ہوا تو میں ان کے کلام کی تلاش میں ان کے شاگردوں کے پاس گیا،میں وہ کلام لے کر ابان بن ابی عیاش کے ہاں پہنچا ’فقرأہ علی کلہ عن الحسن‘’’تو وہ سب کچھ اس نے مجھ پر حسن کے توسط سے پڑھ دیا۔‘‘ اسی لیے میں اس سے کوئی روایت لیناحلال نہیں سمجھتا۔ ابان میں
Flag Counter