Maktaba Wahhabi

252 - 413
کہا ہے۔‘‘ جس سے یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ علامہ نیموی رحمۃ اللہ علیہ نے محمد بن حجر، اور سعید بن عبد الجبار کو ضعیف، ام یحییٰ کو مجہولہ قرا ر دیتے ہوئے اس حدیث کو ’ضعیف جداً‘ قرا ر دیا ہے۔ اور علامہ ماردینی نے بھی محمد بن حجر کو ضعیف اور ام عبد الجبار کو مجہولہ قرار دیتے ہوئے اس کی کمزوری کو عیاں کیا ہے۔ عثمانی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی مجبوری مسند بزار اور طبرانی کی سند چونکہ مولانا عثمانی رحمۃ اللہ علیہ کے پیشِ نظر نہیں تھی، اس لیے لکھتے ہیں: ((إن الحدیث فی سندہ محمد بن حجر عند البزار وھو مختلف فی توثیقہ، وسعید بن عبد الجبار عند الطبرانی وھو کذلک أیضاً)) [1] ’’مسند بزار کی حدیث کی سند میں محمد بن حجر ہے اور اس کی توثیق مختلف فیہ ہے اور طبرانی کی سند میں سعید بن عبد الجبار بھی اسی طرح(مختلف فیہ) ہے۔‘‘ گویابزار اور طبرانی کی دونوں اسانید مختلف فیہ راوی ہونے کی بنا پر حسن ہیں۔حالانکہ طبرانی اور بزار دونوں میں یہ ایک ہی سند سے مروی ہے۔ اور بیہقی میں بھی مختصراً اسی سند سے مروی ہے۔ یوں نہیں کہ طبرانی کی سند میں صرف سعید ہے اور بزار کی سند میں صرف محمد بن حجر ہے جیسا کہ مولانا صاحب باور کرانا چاہتے ہیں۔ مگر ہم انھیں مجبور سمجھتے ہیں۔ سعید بن عبد الجبار مگر آپ دیکھ رہے ہیں کہ محمد بن حجر کی طرح سعید بن عبد الجبار کو بھی مولانا عثمانی اپنے اصول کے مطابق مختلف فیہ قراردیتے ہیں۔ لیکن سعید کے بارے میں ان کی یہ رائے حقیقت
Flag Counter