Maktaba Wahhabi

374 - 413
ساتھ’مثل قاسم بن أبی شیبۃ‘ کو بھی ملحوظ رکھتے تو شاید اس غلط فہمی میں مبتلا نہ ہوتے۔ ہم یہاں جبارہ کی توثیق یا تجریح کی بحث سے صرف نظر کرتے ہیں۔ ورنہ حقیقت یہی ہے یہاں بھی حضرت مولانا کا اس کی توثیق میں طرز استدلال اسی نوعیت کا ہے جو محمد بن عبید اللہ العرزمی، نوح بن ابی مریم وغیرہ کے بارے میں ہے۔ مستور راوی یا مجہول اصولِ حدیث کی تقریباسبھی کتابوں میں مجہول اور مستور راوی کی تفصیل موجود ہے کہ اگر مروی عنہ سے روایت کرنے والا صرف ایک راوی ہو تو اسے مجہول العین کہتے ہیں اور اگر اس سے کم از کم دو ثقہ روایت کریں اور توثیق نہ ہو تو اسے مجہول الحال یا مستور کہتے ہیں۔ بلکہ یہی تقسیم وتفریق مولانا عثمانی مرحوم نے قواعد فی علوم الحدیث میں بیان کی ہے۔ ’’مستور وہ ہے جس کی عدالت باطنی ثابت نہ ہو۔‘‘ اور مجہول العین وہ ہے۔’’جسے علماء نہ جانتے ہوں اور ایک ہی راوی سے اس کی حدیث ہو۔‘‘ یہ بات انھوں نے ’قرۃ العین فی ضبط أسماء رجال الصحیحین‘ اور تدریب الراوی وغیرہ سے نقل کی جس کی تفصیل تطویل کا باعث ہے۔ شائقین ضوابط[1] ملاحظہ فرمائیں۔ اس کے برعکس ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ سجود سھو کی مبحث میں حضرت میمونہ بنت سعد رضی اللہ عنہا کی ایک حدیث طبرانی سے ذکر کی ہے۔ جس کے بارے میں نیل الاوطارکے حوالے سے نقل کرتے ہیں۔ ’’اس کی سند میں عبد الحمید بن یزید ہے اور وہ مجہول ہے جیسا کہ علامہ عراقی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ہے۔‘‘ پھر اس کا دفاع کرتے ہوئے حضرت عثمانی رحمۃ اللہ علیہ رقمطراز ہیں: ((وعبد الحمید بن یزید روی عنہ عثمان البتی وحدہ مستور الحال وحدیث مثلہ مقبول عندنا و عند بعض المحدثین ۔))[2]
Flag Counter