Maktaba Wahhabi

332 - 413
واقعہ کو بیان کرنے میں کوئی حرج نہیں،مگر یہ محض دفع الوقتی ہے اس سے تو احکام میں استدلال کیا گیا ،بلکہ اصول میں بھی اس سے استدلال کیا گیا ہے۔ شاذ کونی کے بارے میں ہم اپنی طرف سے کوئی بات کہنا مناسب نہیں سمجھتے، ماضی قریب میں ترجمان مسلکِ احناف مولانا محمد سرفراز صفدر مرحوم کے الفاظ نقل کرنے پرہی اکتفا کرتے ہیں۔ ’’امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: فیہ نظر، ابن معین رحمۃ اللہ علیہ نے اس کو حدیث میں جھوٹا کہا، ابو حاتم رحمۃ اللہ علیہ اس کو متروک الحدیث، اور نسائی لیس بثقۃ کہتے ہیں، صالح جزرہ فرماتے ہیں: کہ حدیث میں جھوٹ کہتا تھا، امام احمد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : وہ شراب پیتا اور بیہودہ حرکتوں میں آلودہ تھا،نیز فرمایا: درب دمیک میں شاذ کونی سے بڑا جھوٹا اور کوئی داخل نہیں ہوا، بغوی فرماتے ہیں: ائمہ حدیث نے اس کو جھوٹ سے متہم کیاہے، ابن معین رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ وہ جعلی روایتیں بنایا کرتا تھا، امام ابو احمد الحاکم رحمۃ اللہ علیہ اس کو متروک الحدیث اور امام ابن مہدی رحمۃ اللہ علیہ اس کو خائب اور نامراد کہتے ہیں، امام عبد الرزاق رحمۃ اللہ علیہ نے اس کو عدواللہ، کذاب اور خبیث کہا۔ صالح جزرہ رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں۔ وہ آناً فاناً سندیں گھڑ لیتا تھا اور صالح بن محمد رحمۃ اللہ علیہ نے یہ بھی فرمایا کہ وہ کذب اور لونڈے بازی سے متہم تھا۔‘‘[1] سلیمان شاذ کونی کے بارے میں نقل کی گئی اس جرح کے بعد قارئین فیصلہ فرمائیں کہ شاذ کونی کیسا ’’مختلف فیہ‘‘ ہے اور اس کے بیان کیے ہوئے قصہ کا کیا حکم ہے؟ محمد بن ابراہیم بن زیاد الرازی اس قصہ کو شاذ کونی سے نقل کرنے والا محمد بن ابراہیم بن زیاد الرازی الطیالسی ہے ۔ مولانا عثمانی اس کے بارے میں نقل کرتے ہیں:
Flag Counter