Maktaba Wahhabi

369 - 413
کی کو رانہ پیروی میں جو صحیح کہہ رہے ہیں محض مسلک کی غلط وکالت کاشاخسانہ نہیں؟ ع الزام ان کو دیتے تھے قصور اپنا نکل آیا مولانا صاحب کے اس زاویہ فکر کی ہم کئی بار نشاندہی کر چکے ہیں کہ وہ اپنی تائید میں ایک اصول بناتے ہیں اور دوسرے مرحلے میں بڑی بے دردی سے اسے پاش پاش کر دیتے ہیں اور یہی کچھ آپ یہاں دیکھ رہے ہیں۔ مروان بن سالم حضرت ابوالدرداء کی ایک حدیث ’أحسن مازرتم اللّٰه بہ فی قبورکم ومساجد کم البیاض‘‘ کے الفاظ سے ابن ماجہ میں ہے جس کے بارے میں مولانا عثمانی نے فرمایا ہے: ((مروان ھذا ضعیف متھم وإنما ذکرتہ اعتضاداً)) [1] ’’مروان ضعیف متھم ہے میں نے اسے تائید کے لیے ذکر کیا ہے۔‘‘ عرض ہے کہ مروان کے بارے میں اس اعتراف کے بعد کہ وہ ’’متھم‘‘ ہے اس کی روایت کو تائیداً قبول کرنا کیا مولانا صاحب کے تسلیم شدہ ضابطے کے مطابق ہے؟ جو خود انھوں نے قواعد[2] میں بیان کیا ہے کہ ’لایکتب حدیثہ ولا یعتبر بہ ولا یستشھد‘ مگر بات اتنی سی ہی نہیں بلکہ مروان کو امام احمد، عقیلی، نسائی رحمۃ اللہ علیہم نے لیس بثقۃ کہا ہے۔ امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ نے اسے متروک الحدیث بھی کہا ہے اور یہی قول امام دارقطنی رحمۃ اللہ علیہ کا ہے، امام بخاری، مسلم، ابو حاتم ،ابونعیم اور بغوی رحمۃ اللہ علیہم نے منکر الحدیث کہا ہے۔امام ابوحاتم رحمۃ اللہ علیہ نے منکر الحدیث جدا، لایکتب حدیثہ، بھی کہا ہے۔ ابوعروبہ الحرانی نے کہا ہے: ’یضع الحدیث‘ ’’وہ حدیث گھڑتا تھا۔‘‘ امام ساجی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی کہا ہے: وہ کذاب ہے حدیثیں گھڑتا ہے ۔ عقیلی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ہے اس کی احادیث منکر
Flag Counter