Maktaba Wahhabi

422 - 413
عامر‘‘ ہی کی سند سے ہے۔[1] یہاں اس غلط فہمی کا ازالہ بھی ضرروی ہے کہ جی حضرت نے تو مجمع الزوائد سے اسے نقل کیاا ور ان کی نقل صحیح ہے۔ لیکن یہ محض طفل تسلی ہے، کیا مولانا موصوف کے سامنے حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ کی روایت کی پوزیشن واضح نہیں تھی؟ کیونکہ جب نصب الرایہ سے اسی کے متصل بعد کی عبارت انھوں نے نقل کی ہے تو حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ کی روایت کے بارے میں کیونکر بے خبری سمجھی جاسکتی ہے۔ علمی دیانت کا تقاضا تھا کہ وہ نصب الرایہ سے اس کی پوزیشن کو بیان کرتے اورمجمع الزوائد کا جو بظاہر اس سے اختلاف ہے اسے بھی ذکر کر دیتے۔ تاکہ کسی قسم کی حرف گیری کی گنجائش نہ رہتی،مگر ان کا مقصود کچھ اور ہے۔ عفا اللّٰه عنا وعنہ ملحوظہ یہاں یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ مولانا عثمانی نے ایک اور روایت اسی ’’ابو عائذعفیر بن معدان عن سلیم بن عامر عن ابی امامہ‘‘ کی سند سے نقل کی ہے۔ اور ’’بعض الناس‘‘ سے اسی عفیر پر جرح نقل کر کے اس کے جواب کی کوشش کی ہے۔ جس کے الفاظ ہیں: ((فالجواب عنہ بأنہ لم ینسبہ أحد إلی الکذب، بل قال فیہ أبوداود شیخ صالح ضعیف الحدیث کما فی المیزان، والراوی إذا کان صدوقاً صالحاً ولکن لم یبلغ درجۃ الصحیح لقصورہ عن رواتہ فی الحفظ والإتقان ولیس مغفلاً کثیر الخطأو ھو متھم بالکذب فی الحدیث ولا ظہر منہ سبب آخر مفسق فھومن رجال الحسن)) الخ[2] ’’ اس کاجواب یہ ہے کہ اس کی طرف کسی نے کذب کی نسبت نہیں کی،بلکہ
Flag Counter