Maktaba Wahhabi

243 - 413
دوسری مثال مولانا عثمانی نے باب ماجاء فی غسل العیدین کے تحت حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی ایک حدیث ذکر کی ہے جو ’ جبارۃ بن المغلس ثنا حجاج بن تمیم‘ کی سند سے مروی ہے۔ جس کے بارے میں انھوں نے فرمایا ہے: ’ سندہ لابأس بہ‘ اورحجاج کے بارے میں فرماتے ہیں: کہ محدثین نے اسے ضعیف کہا ہے،مگر ابنِ حبان رحمۃ اللہ علیہ نے اسے ثقات میں ذکر کیا ہے، جو اس بات کی دلیل ہے کہ وہ ان کے نزدیک ثقہ ہے۔ ’والاختلاف لا یضر‘ ’’اور اختلاف ضرر کا باعث نہیں۔‘‘ گویا یہ بھی مختلف فیہ راوی ہے۔[1] جب کہ اسے صرف امام ابنِ حبان رحمۃ اللہ علیہ نے الثقات میں ذکر کیا ہے۔ باقی ائمہ جرح نے اسے ضعیف قرار دیا ہے۔ بلکہ امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ نے ’لیس بثقۃ‘ کے الفاظ سے سخت جرح کی ہے امام ازدی رحمۃ اللہ علیہ اورعقیلی رحمۃ اللہ علیہ نے الضعفاء میں ذکر کیا ہے۔ ابن عدی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں: اس کی احادیث مستقیم نہیں۔[2] حافظ ابنِ حجر رحمۃ اللہ علیہ نے تقریب[3] میں ’’ضعیف‘‘ کہا ہے۔ علامہ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں: ’أحادیثہ تدل علی أنہ واہ‘ ’’اس کی احادیث اس پر دال ہیں کہ وہ ’’ واہ‘‘ ہے۔‘‘[4] غور فرمائیے اس کے مقابلے میں تنہا ابنِ حبان رحمۃ اللہ علیہ کے قول کی بنا پر وہ ’’مختلف فیہ‘‘ اور اس کی حدیث حسن اور لابأس بہ ہے۔ اگر تنہا ابنِ حبان رحمۃ اللہ علیہ کے ثقات میں ذکر کرنے سے راوی مختلف فیہ ہو جاتا ہے تو عمرو بن زیاد الباہلی،حامد بن آدم المروزی اور عبد الوھاب بن ہشام جیسے کذاب اور وضاع بھی مختلف فیہ ہیں اور ان کی حدیث حسن درجہ کی ہے۔اسی اصول کے تناظر میں یہاں حجاج کے شاگرد جبارۃ بن مغلس کو بھی ثقہ قرار دیتے ہوئے اس کی اس حدیث کو ’’لابأس بہ‘‘ قراردیا گیا ہے۔ اندازہ کیجئے یہ ’’مختلف فیہ‘‘ کا اصول کیا کیا رنگ دکھلاتا ہے۔
Flag Counter