Maktaba Wahhabi

316 - 413
موصوف اس کے جواب میں فرماتے ہیں: ((لکنہ لایضر فإن التدلیس کالإرسال)) [1] ’’ہمیں یہ مضر نہیں کیونکہ تدلیس ارسال کی طرح ہے۔‘‘ جیسے مرسل مقبول ،مدلس کی معنعن بھی مقبول ہے۔فرماتے ہیں: عطاء کی مراسیل محدثین کے نزدیک ضعیف ،مگر ہمارے نزدیک مراسیل قرون ثلاثہ حجت ہیں۔[2] علامہ ہیثمی رحمۃ اللہ علیہ نے ابوسعد البقال کے بارے میں فرمایا کہ: وہ ثقہ مدلس ہے تو مولانا صاحب نے اس کے جواب میں فرمایا: ((لأن التدلیس والإرسال لایضر عند ناإذا کان الراوی ثقۃ)) [3] ’’ہمارے نزدیک تدلیس وارسال مضر نہیں جب راوی ثقہ ہو۔‘‘ تصویر کا دوسرا رخ مولانا عثمانی نے جو موقف بیان کیا ہییہی موقف قواعد علوم الحدیث میں بھی ذکر کیا ہے۔ یہ حنفی اصول تو ہے محدثین کا قطعاً نہیں،بلکہ بہت سے ائمۂ احناف نے بھی اسے تسلیم نہیں کیا۔ یہ موقف بھی حسب سابق اکثر وبیشتر مسلک کے دفاع کے تناظر میں ہے ورنہ کئی مقامات پر خود مولانا عثمانی نے بھی اسے تسلیم نہیں کیا۔ امام سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ کا تعلق بھی خیر القرون سے ہے مولانا عثمانی اور ان کے پیش رو علامہ نیموی رحمۃ اللہ علیہ نے آمین بالجھر کے مسئلہ میں امام شعبہ رحمۃ اللہ علیہ کی روایت کو اس لیے ترجیح دی ہے کہ وہ تدلیس نہیں کرتے جبکہ ان کے مقابلے میں سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ کی روایت ہے اور وہ تدلیس کرتے ہیں، چنانچہ ان کے الفاظ ہیں: ((وأما الثوری فکان ربما یدلس وقد عنعنہ، قال الحافظ فی
Flag Counter