Maktaba Wahhabi

253 - 413
کے بالکل برعکس ہے۔علامہ نیموی رحمۃ اللہ علیہ نے اسے ضعیف قرار دیا ہے۔ بلکہ امام ابن معین رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’لم یکن بثقۃ[1] امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے: ’فیہ نظر[2] علامہ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے اسے المغنی[3] اور دیوان الضعفاء[4] میں ذکر کر کے اس کو ضعیف ہی قرار دیا ہے۔ علامہ ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اسے الضعفاء[5] میں ذکر کیا ہے۔ امام ابن عدی رحمۃ اللہ علیہ کا الکامل[6] میں ذکر کرنا اور کوئی کلمہ توثیق نقل نہ کرنا ان کے نزدیک اس کے ضعف کی دلیل ہے۔ اب ایک طرف امام ابن معین، امام بخاری ،امام نسائی، ابن عدی، ابن جوزی، ذہبی اور حافظ ابنِ حجر رحمۃ اللہ علیہم ہیں اور مقابلے میں تنہا ابنِ حبان رحمۃ اللہ علیہ ہیں۔ بس اسی تناسب سے راوی کو ’مختلف فیہ‘ قرار دینا اگر صحیح ہے تو پھر شاید ہی کوئی راوی ضعیف ہے۔ مزید برآں امام ابنِ حبان رحمۃ اللہ علیہ کا سعید بن عبد الجبار بن وائل کو ثقات میں ذکر کرنا بجائے خود تساہل پر مبنی ہے۔ کیونکہ ان کے نزدیک ہر وہ راوی کتاب الثقات کا ہے جس سے ایک مشہور راوی روایت کرے اور اس پر کوئی جرح نہ ہو۔ جیسا کہ حافظ ابنِ حجر رحمۃ اللہ علیہ نے لسان المیزان کے مقدمہ[7] میں ذکر کیا ہے۔ اب دیکھئے کہ سعید بن عبد الجبار کو الثقات میں ذکر تو کیا مگر فرماتے ہیں: ((یروی عن أبیہ روی عنہ محمد بن حجر)) [8] ’’کہ وہ اپنے باپ سے روایت کرتا ہے اور اس سے محمد بن حجر روایت کرتا ہے۔‘‘ گویا اس سے روایت کرنے والا صرف ایک محمد بن حجر ذکر کرتے ہیں۔ محمد بن حجر کیسا’’مشہور‘‘ راوی ہے یہ پہلے آپ امام ابنِ حبان رحمۃ اللہ علیہ کے کلام ہی سے معلوم کر آئے ہیں۔اسی طرح ایسا بھی نہیں کہ سعید بن عبد الجبار کے بارے میں کوئی جرح نہیں تھی۔ آپ اوپر پڑھ آئے ہیں کہ امام ابن معین رحمۃ اللہ علیہ اور امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اسے مجروح قرار دیا ہے۔ یہ دونوں امام ابنِ حبان رحمۃ اللہ علیہ سے متقدم ہیں۔ اس لیے نہ تو سعید بن عبد الجبار سے
Flag Counter