Maktaba Wahhabi

233 - 413
قرار دیا ہے اور اس پر کوئی کلام نہیں کیا، ان کے الفاظ ہیں۔ ((ولہ بثقات أن النبی صلي اللّٰهُ عليه وسلم کان یجھر ببسم اللّٰه الرحمن الرحیم فی الصلاۃ)) [1] ’’اور بزار میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ثقہ راویوں سے ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں بسم اللہ اونچی آواز سے پڑھتے تھے۔‘‘ مولانا عثمانی کے اصول کا تقاضا ہے کہ اس کے راویوں کو ثقہ اور روایت کو حسن یا صحیح قرار دیا جائے۔ مگر حضرت موصوف کے موقف کے یہ روایت مطابق نہیں تھی اس لیے اس پر عمدۃ القاری کے حوالے سے سات سطروں میں جرح کرتے ہیں۔اور فرماتے ہیں کہ اس کا راوی اسماعیل ’لیس بالقوی‘ ہے۔[2] ہم بس یہی دریافت کرنا چاہتے ہیں کہ اصول کہاں گیا؟ اسی طرح اس سے قبل ترمذی کے حوالے سے علامہ ابن سلیمان رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ایک روایت ان الفاظ سے نقل کی ہے: ((کان رسول اللّٰه صلي اللّٰهُ عليه وسلم یفتتح صلاتہ ببسم اللّٰه الرحمن الرحیم، للترمذی)) [3] ’’کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کا افتتاح بسم اللہ الرحمن الرحیم سے کرتے تھے۔‘‘ اس پر بھی علامہ ابن سلیمان رحمۃ اللہ علیہ نے سکوت کیا ہے۔ مگر مولانا عثمانی نے اعلاء السنن[4] میں اس پر نقد کیا ہے کہ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ اورامام ابوداود رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ اس کی سند ضعیف ہے۔ اصول کہاں گیا؟ یہ اور اسی نوعیت کی دیگر امثلہ سے اس اصول کی حقیقت وحیثیت سمجھی جا سکتی ہے۔ احادیث کی تصحیح وتضعیف کے حوالے سے جہاں مولانا عثمانی مرحوم نے سکوت ابی داود،
Flag Counter