Maktaba Wahhabi

235 - 413
ہیں۔ حضرت شیخ سید بدیع الدین راشدی نے ’’نقض قواعد علوم الحدیث‘‘[1] میں اس اصول اور ان حوالہ جات پر جو تبصرہ کیا ہے، شائقین سے التماس ہے کہ یہ تفصیل خود اس کتاب میں ملاحظہ فرمائیں۔ یہاں اس کا ذکر مزید تطویل کا باعث بنے گا۔ حضرت راشدی کے علاوہ شیخ خلدون الأحدب جو جامعۃ الملک عبد العزیز میں حدیث وعلوم الحدیث کے استاد ہیں، نے یہ اصول مولانا عثمانی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ اور علامہ المنذری رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ کے حوالے سے ذکر کر کے فرمایا ہے۔ ((ماذکرہ المحقق التھانوی، وما تقدم من صنیع بعض الأئمۃ أمثال المنذری وابن الہمام وغیرھما، من أن الراوی المختلف فیہ یعتبر حدیثہ حسناً،لا یعتبر قاعدۃ مطردۃ لا یصح الخروج عنھا)) [2] ’’محقق تھانوی رحمۃ اللہ علیہ ،علامہ المنذری رحمۃ اللہ علیہ اور علامہ ابن الھمام رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ بعض ائمہ نے جویہ ذکر کیا ہے کہ مختلف فیہ راوی کی حدیث حسن ہو گی، یہ کوئی ایسا حتمی قاعدہ نہیں کہ اس کی مخالفت صحیح نہ ہو۔‘‘ لہٰذا ان کا یہ اصول اور ضابطہ کوئی درست ضابطہ نہیں۔ صحیح بات وہی ہے جو عموماً ائمۂ فن نے اختیار کی ہے کہ راوی کے ’’مختلف فیہ‘‘ ہونے میں قرائن کی بنا پر توثیق کو اور کبھی جرح کو راجح قرار دیا جاتا ہے۔ بسا اوقات جارح متشدد اور توثیق کرنے والا معتدل ہوتا ہے۔ ایسی صورت میں توثیق ہی معتبر ہوتی ہے۔ کبھی توثیق کرنے والا متساہل ہوتا ہے تو ایسی صورت میں جرح مقدم ہوتی ہے۔ کبھی توثیق کے مقابلے میں جارح خود مجروح ہوتا ہے یا سنداً جرح قابلِ اعتبار نہیں ہوتی ایسی صورت میں جرح قابلِ قبول نہیں ہوتی، امام علی بن مدینی رحمۃ اللہ علیہ ایک مقام پر فرماتے ہیں: ((إذا اجتمع یحیی بن سعید وعبد الرحمن بن مھدی علی ترک
Flag Counter