Maktaba Wahhabi

236 - 413
رجل لم أحدث عنہ، فإذا اختلفا؟ أخذت بقول عبد الرحمن بن مھدی لأنہ أقصد ھما وکان فی یحیی تشدد)) [1] ’’جب یحییٰ بن سعید اور عبد الرحمن بن مہدی کسی راوی کے ترک پر متفق ہوں تو میں اس سے روایت نہیں لیتا۔ مگر جب دونوں میں اختلاف ہو تو میں عبد الرحمن بن مہدی کے قول کو لے لیتا ہوں کیونکہ ان میں میانہ روی ہے اور یحییٰ میں تشدد ہے۔‘‘ غور فرمائیے دونوں کے اختلاف کی صورت میں امام ابن المدینی رحمۃ اللہ علیہ نے یہ نہیں فرمایا: کہ اس کی حدیث حسن ہے بلکہ ترجیح کی صورت کو اختیار کیا ہے۔ جرح وتعدیل میں ترجیح کے کیا قرائن ہیں؟ اس پر دکتور عبد العزیز بن صالح استاذ الدراسات العلیا فی السنۃ وعلومھا بالریاض جامعۃ الإمام محمد بن سعود الإسلامیۃ کی مستقل کتاب ’قرائن ترجیح التعدیل والتجریح‘ کے نام سے مطبوع ہے اور قابلِ دید ہے۔ جرح مفسر اور غیر مفسر میں بھی یہی اصول کار فرما ہے۔چنانچہ جب ایک ہی راوی میں جرح وتعدیل مختلف ہو تو جرح مفسر تعدیل سے مقدم ہو گی۔ یا دونوں میں سے سبب ترجیح کی بنا پر کسی ایک کو ترجیح دی جائے گی۔ حافظ ابنِ حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: ((فالرجل إذا ثبتت عدالتہ لم یقبل فیہ الجرح إلا إذا کان مفسراً بأمر قادح)) [2] ’’راوی کی جب عدالت ثابت ہو تو اس میں جرح مفسر ہی قبول کی جائے گی جس میں سببِ جرح بیان ہوا ہو۔‘‘ خطیب بغدادی نے فرمایا ہے کہ ائمہ محدثین مثلاً امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ ، امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ وغیرہما کا یہی موقف ہے۔[3] مولانا عبد الحی لکھنوی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی ذکر کیا ہے کہ جمہور علماء کا یہی موقف ہے، علامہ ابن الصلاح رحمۃ اللہ علیہ نے اسی کو صحیح کہا ہے، امام فخر الدین رازی رحمۃ اللہ علیہ ، علامہ
Flag Counter