Maktaba Wahhabi

255 - 413
کیونکر ممکن ہے کہ وہ اس کا انتساب ترمذی کی طرف کریں۔ ظاہر یہی ہے کہ یہ ناسخ کی تصحیف ہے۔ صاحبِ غایۃ المقصود پر تعجب ہے کہ اس نے وہم کا انتساب ابن ہمام کی طرف کیا ہے اور کہا ہے کہ اس حدیث کا ترمذی میں کوئی وجود نہیں۔ اور یوں ناظرین کو وہم میں مبتلا کیا ہے کہ اس حدیث کی کوئی اصل نہیں حالانکہ یہ نصب الرایۃ اور مجمع الزوائدمیں بزار کے حوالے سے موجود ہے۔‘‘[1] گویامولاناعثمانی یہ بات تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں کہ یہ علامہ ابن ہمام رحمۃ اللہ علیہ کا وہم ہے۔بلکہ فرماتے ہیں: کہ یہ ناسخ سے تصحیف ہوئی ہے۔ حالانکہ شیخ عبد الحق دہلوی رحمۃ اللہ علیہ المتوفی ۱۰۵۲ھ نے بھی شرح سفر السعادۃ میں علامہ ابن ہمام رحمۃ اللہ علیہ سے بحوالہ ترمذی یہ روایت نقل کی ہے۔چنانچہ ان کے الفاظ ہیں: ((شیخ ابن الہمام از برائے اثبات استحباب حدیث ترمذی ازوائل بن حجر آوردہ)) [2] بلکہ مولانا لکھنوی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی تحفۃ الطلبۃ[3] میں شرح سفر السعادۃ سے یہی کچھ نقل کیا ہے اور اس سے قبل خود بھی گردن کے مسح کے ثبوت میں ایک یہی روایت نقل کرتے ہوئے فرمایا ہے: ((ومنھا ماحکاہ ابن الھمام من حدیث وائل فی صفۃ وضوء رسول اللّٰه صلي اللّٰهُ عليه وسلم ثم مسح علی رأسہ ثلاثاً وظاہر أذنیہ ثلاثاً وظاہررقبتہ۔ وأظنہ قال: ظاہر لحیتہ ثم غسل قدمہ الیمنی، الحدیث رواہ الترمذی)) [4] مفہوم واضح ہے کہ علامہ لکھنوی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی علامہ ابن ہمام رحمۃ اللہ علیہ سے بحوالہ ترمذی ہی یہ
Flag Counter