Maktaba Wahhabi

256 - 413
روایت نقل کی ہے۔ بلکہ صاحبِ غایۃ المقصود علامہ شمس الحق ڈیانوی رحمۃ اللہ علیہ نے ہی غایۃ المقصود میں فرمایا ہے: کہ ’’بعض مشاہیر پر تعجب ہے کہ انھوں نے اپنے رسالہ ’تحفۃ الطلبۃ فی تحقیق مسح الرقبۃ‘ میں ابن ہمام رحمۃ اللہ علیہ سے بحوالہ ترمذی یہ روایت نقل کی اور اس کا اقرار کیا۔‘‘ کوئی اس پر اعتراض نہیں کیا۔ اس لیے تصحیف کا دعوی محض دفاع کی خوبصورت کوشش ہے۔وہ حسن ظن کی بنا پر یہ بھی کہہ دیتے کہ شاید علامہ ابن ہمام رحمۃ اللہ علیہ کے پاس ترمذی کے کسی نسخہ میں روایت موجود ہو۔ تو اس سے انھیں کون روک ٹوک سکتا تھا۔مولانا عبد الحی رحمۃ اللہ علیہ نے تحفۃ الطلبۃ1287ھ میں لکھی،اورخود انھوں نے ذکر کیا ہے ۱۲۸۹ھ میں جب میں دہلی گیا، تو ایک صاحب نے تحفۃ الطلبۃ میں اس روایت کے ترمذی کی طرف انتساب پر اعتراض کیا۔ چنانچہ میں نے بھی ترمذی میں تتبع کے باوجود یہ روایت نہیں دیکھی، میں نے نصب الرایۃ اور بنایۃ کی مراجعت کی تو ان میں اس کا انتساب بزار کی طرف پایا۔[1] غالباً اس کے بعدمولانا لکھنوی رحمۃ اللہ علیہ نے تحفۃ الطلبۃ کا حاشیہ بنام ’تحفۃ الکملۃ علی حواشی تحفۃ الطلبۃ‘ لکھا تو اس میں انھوں نے وضاحت کی کہ ((رواہ الترمذی ھکذا ذکر فی فتح القدیر وتبعہ الشیخ الدھلوی فی شرح سفر السعادۃ، لکن لم أجدہ فی النسخ المتداولۃ من جامع الترمذی، وذکر العینی فی ’البنایۃ‘ والجمال الزیلعی فی تخریج أحادیث الھدایۃ المسمی ب ’نصب الرایۃ‘ وابن حجر العسقلانی فی ملخص تخریج الزیلعی المسمی ب الدرایہ ھذہ الروایۃ مسندۃ الی البزار)) [2] ’’فتح القدیر میں اسی طرح ہے کہ اسے ترمذی نے روایت کیا ہے۔ اسی کی پیروی شیخ
Flag Counter