Maktaba Wahhabi

257 - 413
عبد الحق رحمۃ اللہ علیہ نے ’’شرح سفر السعادۃ‘‘ میں کی ہے۔ لیکن میں نے جامع ترمذی کے متد اول نسخوں میں یہ روایت نہیں پائی۔جبکہ عینی نے ’’البنایہ‘‘ میں اور جمال الزیلعی نے ہدایہ کی تخریج نصب الرایہ میں اور ابن حجر عسقلانی نے الزیلعی کی تلخیص ’’الدرایۃ‘‘ میں اس روایت کا بزارکی طرف انتساب کیا ہے۔‘‘ حیرانی ہوتی ہے کہ وہم ہوا ہو علامہ ابن ہمام رحمۃ اللہ علیہ سے، ان کی پیروی کی ہو شیخ عبد الحق دہلوی رحمۃ اللہ علیہ اور مولانا عبد الحی رحمۃ اللہ علیہ نے، مولانا ڈیانوی رحمۃ اللہ علیہ نے اس پر تنبیہ فرما دی تو وہ موجبِ گردن زدنی قرار پائیں۔ بعد میں یہی بات مولانا عبد الحی رحمۃ اللہ علیہ کہہ دیں تو خاموشی اختیار کر لی جائے۔ وہ بھی دھڑلے سے کہتے ہیں کہ علامہ ابن ہمام رحمۃ اللہ علیہ نے ترمذی کی طرف ہی انتساب کیا ہے۔ مولانا ڈیانوی رحمۃ اللہ علیہ پر ہی خفگی محض مسلکی عصبیت کا نتیجہ نہیں؟ پھر یہ بات بھی عجیب کہی کہ علامہ ابن ہمام رحمۃ اللہ علیہ نے تو کہا ہے کہ اس میں’’محمد بن حجر‘‘ ہے اور وہ سنن کا راوی ہی نہیں لہٰذا وہ ترمذی کی طرف انتسابکیسے کر سکتے تھے۔ اس لیے یہ ان کا وہم نہیں کاتب کی تصحیف ہے۔ عرض ہے کیا انھوں نے یہ فرمایا ہے کہ ’’محمد بن حجر‘‘ سنن کا راوی نہیں؟ اپنا لقمہ دوسرے کے منہ میں ڈالنا کوئی عقلمندی نہیں۔ یہ ’’نکتہ‘‘ شیخ عبد الحق دہلوی رحمۃ اللہ علیہ اور مولانا عبد الحی رحمۃ اللہ علیہ کے پیشِ نظر ہوتا تو ممکن ہے وہ بھی اسے تصحیف ہی کہتے۔مگر وہ اس کی غیر معقولیت سے باخبر تھے اس لیے ان پر اعتماد میں یہ سب کچھ لکھ دیا۔ مولانا عثمانی تو مولانا ڈیانوی رحمۃ اللہ علیہ سے ناراض ہیں۔ مزید عرض ہے کہ علامہ ابن ہمام رحمۃ اللہ علیہ نے اسی بحث میں احادیثِ وضو ذکر کرتے ہوئے جن ۲۲صحابہ کرام کی روایات ذکر کی ہیں، ان میں ایک ’’جبیربن نفیر‘‘ کی حدیث ہے چنانچہ ان کے الفاظ ہیں:’الحادی عشر جبیر بن نفیر[1] حالانکہ یہ روایت جبیر بن نفیر کے باپ نفیر سے ہے۔جبیربن نفیر تو صحابی ہی نہیں۔[2] مزید دیکھئے نصب الرایہ۔ [3] یہ بات بھی عجیب فرمائی کہ یہ ’’تصحیف من الکاتب‘‘ کاتب کی تصحیف ہے۔حالانکہ اصولِ
Flag Counter