Maktaba Wahhabi

258 - 413
حدیث کا ابتدائی طالبِ علم بھی جانتا ہے کہ ایک جیسے حروف میں تغییر اگر نقطوں کی بنا پر ہو تو اسے تصحیف کہتے ہیں جیسے یسار سے بشار۔ اور اگر حرف کی شکل ہی تبدیل ہو جائے تو اسے تحریف کہتے ہیں۔لہٰذا ’’ترمذی‘‘ کو ’’بزار‘‘ سے تصحیف کہنا خود مولانا عثمانی کا وہم ہے اسے تصحیف نہیں تحریف کہنا چاہیے تھا کہ یہاں فرق صرف نقطوں کا نہیں حروف اور شکل کا ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابلِ توجہ ہے کہ علامہ ابن ہمام رحمۃ اللہ علیہ نے فتح القدیر میں محمد بن حجر پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی جرح ’’فیہ نظر‘‘ نقل کی ہے۔ جسے مولانا عثمانی نے شاید مصلحتاً نقل نہیں کیا۔بلکہ میزان سے انھوں نے ’فیہ بعض النظر‘ نقل کیا ہے۔ دونوں میں جو فرق ہے۔ اہلِ علم اس سے باخبر ہیں۔ جیسا کہ پہلے بھی اس کی طرف ہم اشارہ کر آئے ہیں۔ محدث ڈیانوی رحمۃ اللہ علیہ نے اسی روایت اور گردن کے مسح کے بارے میں یہ بات بھی فرمائی ہے کہ’’بہت سے علماء نے تصریح کی ہے کہ گردن کے مسح کی تمام روایات ضعیف ہیں۔ اور گردن کے مسح کے بارے میں کلام معمول بہا طریقہ کے تناظرمیں ہے، جس میں سر کے مسح کے بعد الٹے ہاتھ کی انگلیوں سے گردن کا مسح کیا جاتا ہے یہ کیفیت تو کسی حدیث سے ثابت نہیں۔ اور وائل بن حجر کی روایت تو ان کے مذہب کے بھی مطابق نہیں کیونکہ اس میں تین بار سر اور کانوں کے مسح کا ذکر ہے اور وہ اس کے قائل نہیں تو اس سے استدلال کیونکر صحیح ہوا۔‘‘ مولانا عثمانی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کے جواب میں ادھوری بات فرمائی کہ سر کے تین بار مسح کا انکار ہم بالکل نہیں کرتے ،ہدایہ میں امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ سے تین بار کی مشروعیت کا بھی ذکر ہے۔ اور کان سر میں داخل ہیں۔ ملخصاً[1] حالانکہ حل طلب مسئلہ تو یہ تھا کہ احناف کے ہاں تین بار سر اور کانوں کا مسح مسنون اور معمول بہا ہے؟قطعاً نہیں۔ روایت قابلِ اعتبار ہے تو اس کے مطابق عمل ہونا چاہیے اور اسے مسنون تسلیم کرنا چاہیے۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے تین بار سر کے مسح کو مسنون کہا تو ہدایہ میں اس کے جواب میں کیا ارشاد فرمایا گیا ہے؟
Flag Counter