Maktaba Wahhabi

105 - 413
امام شعبہ رحمۃ اللہ علیہ سے فرمایا: تم یہ احادیث لکھ رہے ہو حالانکہ تم جانتے ہو کہ وہ کذاب ہے، تو امام شعبہ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: اللہ آپ پر رحمت فرمائے یہ میں اس لیے لکھ رہا ہوں کہ کوئی کذاب آئے اور انھیں معمر عن ثابت عن انس سے بیان کرے تو میں کہوں تو جھوٹ کہتا ہے یہ تو معمر عن ابان کے واسطہ سے ہے۔[1] بعض محدثین کذابین سے خبردار کرنے کے لیے ان کی روایت لیتے اور لکھتے تھے امام ابن معین رحمۃ اللہ علیہ ہی فرماتے ہیں: ہم کذابین سے ان کی روایات لکھتے ہیں پھر ہم انھیں تنور میں ڈال دیتے اور تنور سے پکی روٹی لے لیتے ہیں۔[2] اس لیے امام شعبہ رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی روایت لکھی ہے تو یہ اس کی قطعاً توثیق نہیں۔بلکہ انھوں نے صراحۃً اسے کذاب کہا ہے اور یہاں تک کہہ دیا ہے کہ مجھے میرے گدھے کا پیشاب پینا پسند ہے اس سے کہ میں ابان سے روایت کروں لہٰذا امام شعبہ رحمۃ اللہ علیہ کے اس قول سے ’ومن یصبر عن ذا الحدیث‘’’ اس حدیث سے کون صبر کر سکتا ہے‘‘ یہ سمجھنا کہ امام شعبہ کے نزدیک اس حدیث کی اہمیت ہے نہایت سطحی اور بیکار کوشش ہے۔ اسی طرح یہ کہنا بھی بجائے خود محض دعوی ہے کہ مجتہد کا اس حدیث سے استدلال اس کی تصحیح ہے جیسا کہ اس پر پہلے بحث گزر چکی ہے۔ اسی طرح حافظ ابنِ حجر رحمۃ اللہ علیہ سے یہ نقل کیا گیا کہ انھوں نے الاصابہ میں ام عبید کے ترجمہ میں’’ضعیف‘‘ کہا ہے گزارش ہے ’’ضعیف ‘‘ ہی نہیں بلکہ ’’ضعیف جداً‘‘ کہا ہے ۔ دونوں میں جو فرق ہے اہلِ علم اسے خوب جانتے ہیں کہ ’’ضعیف ‘‘اور ’’ضعیف جداً‘‘ میں کیا فرق ہے۔ پھر حافظ ابنِ حجر رحمۃ اللہ علیہ نے فتح الباری[3] میں ابان بن ابی عیاش کو ’’ضعیف باتفاق‘‘ کہ وہ بالاتفاق ضعیف ہے اور تقریب میں متروک کہا ہے حتی کہإتحاف المھرۃ میں ’’متروک باتفاق‘‘ کہا ہے[4] اور شرح نخبۃ الفکر[5] میں کہا ہے متروک وہ ہوتا ہے جو متھم بالکذب ہو۔ بتلائیے متروک کی روایت ’’ضعیف‘‘یا ’’ضعیف جداً‘‘ ہوتی ہے؟ خود مولانا عثمانی نے فرمایا ہے:
Flag Counter