Maktaba Wahhabi

65 - 413
نزدیک صالح، حسن ہے۔ اس کے برعکس جب مولانا احمد حسن سنبھلی رحمۃ اللہ علیہ نے ضباعۃ بنت مقداد کی حدیث کے بارے میں کہا کہ اس پر امام ابو داود رحمۃ اللہ علیہ نے سکوت کیا ہے تو جواباً ارشاد ہوتا ہے۔ ((أما سکوت أبی داود فنعم ولکنہ لا یرفع الجھالۃ عن ضباعۃ۔۔۔ فإن سکوت أبی داود لایستلزم صحۃ الحدیث ولا حسنہ بل صلاحیتہ للاحتجاج ‘الخ)) [1] ’’رہا امام ابوداود رحمۃ اللہ علیہ کا سکوت تو یہ ٹھیک ہے مگر اس سے ضباعۃ کی جہالت ختم نہیں ہوتی۔۔۔ابوداود رحمۃ اللہ علیہ کا سکوت حدیث کی صحت کو مستلزم ہے نہ حسن ہونے کو بلکہ وہ استدلال کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس کے بعد انھوں نے تقریب اور لسان المیزان سے ضباعہ کا مجہول ہونا نقل کیا ہے۔ حالانکہ محمد بن یزید الیمامی مجہول کی روایت کے بارے میں ہم نقل کر آئے ہیں کہ مولانا صاحب نے فرمایا ہے امام ابو داود رحمۃ اللہ علیہ نے اسے ضعیف نہیں کہا لہٰذا وہ ان کے نزدیک حسن ہے۔[2] بلکہ قواعد علوم الحدیث میں بھی علامہ منذری رحمۃ اللہ علیہ سے اس قسم کی روایات کا حسن ہونا نقل کیا ہے۔لیکن یہاں ضباعہ کی حدیث سکوت ابی داود کے باوجود حسن ہونے کے لائق نہیں۔ اسی طرح حضرت موصوف نے ابو داود رحمۃ اللہ علیہ کی حدیث ((أمررسول اللّٰه صلي اللّٰهُ عليه وسلم بقتلی أحد أن ینزع عنھم، الحدیث ))الخ کے بارے میں پہلے تو نصب الرایۃ[3] سے نقل کیا کہ ’أعلہ النووی بعطاء‘ کہ عطاء بن سائب کی وجہ سے علامہ نووی رحمۃ اللہ علیہ نے اسے معلول کہا ہے پھر اس کا دفاع کیا ۔ ((إن إعلال النووي بعد سکوت أبي داود علیہ غیر مضر)) [4]
Flag Counter