Maktaba Wahhabi

50 - 413
ہوتا۔ مگر حنفی وکیل علامہ نیموی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ یہ روایت ضعیف ہے کیونکہ اس کا راوی عبید اللہ بن عبد اللہ بن رافع مستور ہے۔[1] نہ عبید اللہ ،امام احمد، امام ابن معین رحمۃ اللہ علیہم کی تصحیح سے ثقہ وعادل ہوئے اور نہ ہی امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ کی تحسین نے کوئی فائدہ دیا۔ نہ ہی مسند امام احمد رحمۃ اللہ علیہ میں ہونے کی بنا پر یہ ’’مقبول‘‘ بن سکی ۔ اسی طرح عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث ((إذا کان الماء قلتین۔۔۔)) جسے امام ابن معین رحمۃ اللہ علیہ نے جید الاسناد ،امام ابن خزیمہ ،ابن حبان اور حاکم رحمۃ اللہ علیہم وغیرہ نے صحیح کہا۔ امام شافعی ،احمد اور اسحاق رحمۃ اللہ علیہم نے اس کے مطابق فتوی دیا جیسا کہ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی جامع[2] میں ذکر کیا ہے،مگر ہمارے حنفی وکیل علامہ نیموی کے نزدیک معلول اور ضعیف ہے۔[3] خود مولانا عثمانی نے مضطرب المتن والاسناد اور غیر ثابت کہا ہے۔[4] یہ اور اس نوعیت کی دیگر مثالوں سے واضح ہوتا ہے کہ یہ اصول حتمی نہیں کسی بھی امام کی تصحیح یا استدلال سے اس کے سب راوی ثقہ اور وہ روایت صحیح قرار نہیں پاتی۔ زیادہ سے زیادہ اس امام کے نزدیک وہ صحیح قرار دی جا سکتی بشرطیکہ وہ ائمہ مجتہدین اور ائمہ جرح وتعدیل میں شمار ہوتا ہو۔ اور حدیث سے استدلال وروایت میں کوئی خاص اسلوب نہ ہو مثلاًصحیح کی عدم موجودگی پر ضعیف سے استدلال کا قائل ہو۔ البتہ اگر اس کی سند کے کسی راوی کو مجھول یا مستور کہا گیا ہو اور ائمہ معتبرین جرح وتعدیل میں سے اگر کسی نے اس حدیث کی تصحیح کی ہے تو یہ اس راوی کی جہالت کے رفع کا باعث ہے۔ اسی طرح عبد اللہ بن سید ان کی حدیث ذکر کرتے ہوئے مولانا موصوف نے لکھا ہے((رواہ الدارقطنی والامام أحمد فی روایۃ ابنہ عبد اللّٰه واحتج بہ)) کہ اسے امام دارقطنی رحمۃ اللہ علیہ اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے روایت کیا ہے اور اس سے استدلال کیا ہے۔ مگر اس کے جواب میں انھوں نے فرمایا ہے: کہ ابن سیدان مجہول ہے ابنِ حبان رحمۃ اللہ علیہ کا اسے ثقات میں ذکر کرنا اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کا اس سے استدلال کرنا اس کی جہالت کے زائل ہونے کا
Flag Counter