Maktaba Wahhabi

49 - 413
’’کہ مجتہد جب کسی حدیث سے استدلال کرے تو یہ اس کی تصحیح ہو گی۔‘‘ یہی بات انھوں نے(170/1) اور دیگر مقامات پر کہی ہے اور قواعد علوم الحدیث[1]میں بھی علامہ ابن ھمام وغیرہ سے نقل کی ہے ۔ مگر اس رائے کے برعکس علامہ ابن الصلاح رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ہے: ((عمل العالم أوفتیاہ علی وفق حدیث لیس حکماً منہ بصحۃ ذلک الحدیث )) [2] ’’عالم کا عمل یا اس کا حدیث کے مطابق فتوی اس کی طرف سے حدیث پر صحت کا حکم نہیں ہے۔‘‘ سیدھی سی بات ہے کہ جب کسی عالم ومجتہد کا صحیح حدیث کے خلاف قول وعمل اس کو مستلزم نہیں کہ وہ حدیث اس کے نزدیک ضعیف ہو تو اس کا عمل اس کی صحت کی دلیل کیونکر بن سکتا ہے؟ کیونکہ اس بات کا احتمال ہے کہ اس حدیث کے علاوہ بھی کوئی خارجی دلیل اس کی مؤید ہو جیسے یہ کہ اجماع یا قیاس اس کا مؤید ہو۔ اس بنا پر مجتہد نے اس حدیث پر عمل کیا ہویا اس سے استدلال کیا ہو،بلکہ بعض ائمہ کرام وہ بھی ہیں جو ضعیف حدیث کو قیاس سے مقدم جانتے ہیں جیسا کہ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ نے فرمایا ہے یابتقاضائے احتیاط اس پر عمل کیا ہو۔ جیسا کہ علامہ سخاوی رحمۃ اللہ علیہ نے فتح المغیث[3] میں کہا ہے۔ مزید یہ کہ یہ تعدیل وتصحیح ضمنی ہو گی اگر اس کے مقابلے میں مفسر جرح ثابت ہو گی تو اعتبار جرح کا ہو گانہ کہ ضمنی تعدیل وتصحیح کا۔ مولانا عثمانی رحمۃ اللہ علیہ نے یہ اصول تو پسند کر لیا ،مگر یہ غور نہ فرمایا ہے کہ حضرت ابوسعید خدری رحمۃ اللہ علیہ کی معروف بئربضاعہ والی حدیث کو امام احمد ،امام یحییٰ بن معین اورامام ابو داود رحمۃ اللہ علیہم نے صحیح کہا اور امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے حسن قرار دیا۔ اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہ ، امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے اسی کے مطابق فتوی دیا ہے کہ پانی زیادہ ہو جب تک رنگ بو اور ذائقہ نہ بدلے وہ نجس نہیں
Flag Counter