Maktaba Wahhabi

51 - 413
سبب نہیں بنتا۔[1] بجا فرمایا مگر مسند احمد رحمۃ اللہ علیہ کی روایات کو مقبول اور امام مجتہد کے استدلال سے حدیث کے صحیح ہونے کا اصول کہاں گیا؟ اسی طرح مولانا عثمانی نماز میں بسم اللہ اونچی آواز سے پڑھنے کے بارے میں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی حدیث بحوالہ مستدرک حاکم نقل کر کے فرماتے ہیں:’’امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ نے اسے مسلم کی شرط پر صحیح کہا ہے اور دارقطنی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ہے اس کے سب راوی ثقہ ہیں۔ ((وقد اعتمد الشافعی علی حدیث معاویۃ ھذا فی اثبات الجھر)) [2] ’’امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے جھراً بسم اللہ کے ثبوت میں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی حدیث پر اعتماد کیاہے۔‘‘ اس اعتراف کے باوجود کہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا اس پر اعتماد ہے ،مگرفرماتے ہیں: ’’اس کا مدار عبد اللہ بن عثمان بن خثیم پر ہے وہ اگرچہ مسلم کا راوی ہے لیکن متکلم فیہ ہے امام یحییٰ رحمۃ اللہ علیہ سے منقول ہے کہ اس کی حدیث قوی نہیں ،نسائی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا: وہ لین الحدیث،لیس بالقوی ہے، ابن المدینی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: وہ منکر الحدیث ہے، بالجملہ وہ مختلف فیہ ہے وہ جس میں منفرد ہو قابل قبول نہیں۔‘‘ الخ [3] عبد اللہ بن عثمان کی اس حدیث سے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ استدلال کریں، امام ابن معین رحمۃ اللہ علیہ اسے ایک قول میں ثقۃ حجۃ کہیں ،امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ بھی ایک قول میں ثقہ کہیں،العجلی رحمۃ اللہ علیہ اسے ثقہ اور ابو حاتم رحمۃ اللہ علیہ ((مابہ بأس صالح الحدیث))کہیں۔ امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ اس سے روایت لیں، ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ اسے ثقات میں ذکر کریں اور کہیں ’یخطیٔ‘ ابن عدی رحمۃ اللہ علیہ اس کی احادیث کو حسن کہیں، ابن سعد رحمۃ اللہ علیہ ثقہ اور اس کی احادیث کو حسن کہیں۔[4] حاکم رحمۃ اللہ علیہ اس کی حدیث کو صحیح اور دارقطنی رحمۃ اللہ علیہ اسے ثقہ کہیں، ترمذی رحمۃ اللہ علیہ اس کی حدیث کو حسن [5] اور ایک دوسرے مقام پر[6] حسن صحیح کہیں، صحیح ابن خزیمہ اور ابنِ حبان رحمۃ اللہ علیہ کا وہ راوی، حافظ
Flag Counter