Maktaba Wahhabi

45 - 413
دکتور خالد بن منصور حفظہ اللہ نے بھی’’الحدیث الحسن لذاتہ ولغیرہ‘‘کی جلد ثالث میں بڑی تفصیل سے امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ کی تحسین پر نقدوتبصرہ کیا ہے۔ مگر یہ ہمارا موضوع نہیں۔ اس لیے محض امام ترمذی کی تحسین سے مدلس کی معنعن روایت کو اتصال پر محمول کرنا، یا مجاھیل اور مختلف فیہ راویوں کی روایات کو حسن قرار دے دینا محل نظر ہے۔ تاہم مولانا عثمانی نے ایک مقام پر ابنِ اسحاق کی معنعن روایت جسے امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے باب المذی میں ذکر کر کےحسن صحیح کہا ہے اور یہ بھی فرمایا ہے کہ یہ حدیث ہم ابن اسحاق کی سند سے ہی جانتے پہچانتے ہیں، نقل کر کے لکھا ہے۔ ((وھذا یرفع احتمال تحسینہ لأجل المتابعۃ)) [1] ’’اس سے یہ احتمال اٹھ جاتا ہے کہ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی تحسین متابعت کی وجہ سے کی ہے۔‘‘ جس سے ان کے موقف کی مزید وضاحت ہو جاتی ہے۔ اس حوالے سے اعلاء السنن [2] کی مزید مراجعت بھی مفید ہو گی۔ مگر اس کے برعکس یہ بھی دیکھئے کہ مولانا عثمانی اس حقیقت کا بھی اعتراف کرتے ہیں کہ ((فإن الترمذی والحاکم متساھلان فیھما ولم یقدح ذلک فی جلالتھما)) [3] ’’کہ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ اور امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ تحسین وتصحیح میں متساہل ہیں اور یہ تساہل ان کی جلالت شان میں قدح کا باعث نہیں ہے۔‘‘ بلکہ قواعد علوم الحدیث[4] میں بھی انھیں متساہل قرار دیا گیا ہے۔ قابلِ غور سوال یہ ہے کہ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ کی تحسین وتصحیح اگر بہر نوع قابل قبول ہے اور ان کی تحسین سے مجہول راوی ثقہ، مدلس کی تدلیس مرتفع اور انقطاع زائل ہو جاتا ہے تو امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ کے متساہل ہونے کا مفہوم کیا ہے؟ اور وہ کس بنا پرمتساہل ہیں؟
Flag Counter