Maktaba Wahhabi

44 - 413
احتمال ہے کہ انھوں نے اس کی متابعت پا لی ہو، یا ان دونوں راویوں پر جرح ان کے نزدیک قابل اعتماد نہ ہو،۔۔۔ اور یہ اس کی دلیل ہے کہ تدلیس کی علت حدیث کے حسن ہونے میں مضر نہیں اس لیے آپ امام ترمذی کو دیکھتے ہیں کہ حجاج کے مدلس ہونے کے باوجود اس کی حدیث کو حسن کہتے ہیں۔‘‘ بلکہ مولانا موصوف نے جلی حروف سے یہ عنوان دیا ہے۔ ((’حدیث المدلس الثقۃ حسن ولولم یصرح بالسماع )) ’’ثقہ مدلس کی حدیث معنعن ہونے کے باوجود حسن ہوتی ہے۔‘‘ ہمیں یہاں سردست حجاج بن ارطاۃ کی توثیق یا تضعیف یا منھال بن خلیفہ کے بارے میں جرح وتعدیل کے حوالے سے کچھ عرض کرنا ہے اور نہ ہی ترمذی کی اس حدیث پر بحث ہمارا مقصد ہے۔ ہمیں بس یہ عرض کرنا ہے کہ حضرت موصوف امام ترمذی کی تحسین کو استدلال کے لیے کافی سمجھتے ہیں،مدلس کی تدلیس بھی امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ کی تحسین سے زائل ہو جاتی ہے،بلکہ راوی کا ضعف بھی اس سے دور ہو جاتا ہے ۔کیونکہ منھال کو حافظ ابنِ حجر رحمۃ اللہ علیہ نے بھی ضعیف ہی کہا ہے ۔[1] یزید بن عبد اللہ بن مغفل کے بارے میں ابنِ خزیمہ ،ابن عبد البر اور خطیب رحمۃ اللہ علیہم نے کہا ہے: کہ مجہول ہے ،مگر مولانا صاحب فرماتے ہیں کہ اما م ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی معرفت کے بعد ہی اسے حسن کہا ہے اور جاننے والانہ جاننے والے پر مقدم ہے۔[2] حالانکہ حدیث کو حسن کہنے کی امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ کی اپنی خاص اصطلاح ہے جس کی تفصیل خود انھوں نے ’’العلل الصغیر‘‘ میں بیان فرما دی ہے ۔بلکہ حافظ ابنِ حجر رحمۃ اللہ علیہ نے النکت میں اس پر مفصل بحث کی ہے اور بڑے تتبع سے مثالیں دے کر فرمایا ہے کہ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ شواہد کی بنا پر سییٔ الحفظ، ضعیف ،مختلط،مدلس راویوں اور منقطع روایات کو بھی حسن کہہ دیتے ہیں۔
Flag Counter