Maktaba Wahhabi

348 - 413
’’کہ ابن عدی رحمۃ اللہ علیہ نے ’إلارکعتي الصبح‘ کی حدیث راوی کی مناکیر میں ذکر نہیں کی۔‘‘ لہٰذا جب ابن عدی رحمۃ اللہ علیہ نے الکامل[1] میں اور انھی کی پیروی میں حافظ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے میزان میں نوح کے ترجمہ میں یہ روایت ذکر کی ہے، تو اس کی نکارت میں کیا شبہ رہ جاتا ہے۔نوح ابو عصمہ کی ایک اور موضوع روایت بھی امام ابن عدی رحمۃ اللہ علیہ نے ذکر کی ہے۔ مولانا عثمانی نے اس کا بھی دفاع کیا ہے ،جس کا ذکر آئندہ ان شاء اللہ آئے گا۔اور یہ بات پہلے ہم بیان کر آئے ہیں کہ ’یکتب حدیثہ‘ کے یہ معنی قطعاً نہیں کہ اس کی حدیث حسن ہے۔ بلکہ یہ کہ اسے لکھا جا سکتا ہے۔ امام ابن عدی رحمۃ اللہ علیہ کے علاوہ میزان میں حسب ذیل جرح منقول ہے۔ امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ نے متروک کہا ہے۔ امام ابن مبارک رحمۃ اللہ علیہ سے اس کے بارے میں سوال کیا گیا تو انھوں نے فرمایا: وہ لا الہ الا اللہ کہتا ہے۔(اس میں دراصل اس پر تعریض ہے کہ وہ کلمہ گو ہے) معلی بن ہلال رحمۃ اللہ علیہ کے ترجمہ [2] میں حافظ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے ذکر کیا ہے کہ امام ابن مبارک رحمۃ اللہ علیہ نے امام وکیع رحمۃ اللہ علیہ سے کہا: ہمارے نزدیک ایک شیخ ہیں، جنھیں نوح بن ابی مریم کہتے ہیں، وہ اسی طرح حدیثیں گھڑتا ہے جیسے معلی حدیثیں گھڑتا ہے۔ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’لم یکن بذاک فی الحدیث‘، ابنِ حبان رحمۃ اللہ علیہ نے کہا: وہ وہی ہے جو یہ حدیث روایت کرتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے روٹی کو چھری سے کاٹنے سے منع کیا اور فرمایا روٹی کی تکریم کرو اللہ تعالیٰ اس کی تکریم کرتے ہیں۔[3] اسی طرح یہ بھی کتنی عجیب بات ہے کہ تہذیب سے یہ تو نقل کیا جائے کہ امام شعبہ رحمۃ اللہ علیہ اس سے روایت کرتے ہیں اور یوں اس کی توثیق کا نکتہ نکالا جائے،مگر اس میں جو جرح منقول ہے اسے بالکل خاطر میں نہیں لاتے۔ خلاصتہً عرض ہے کہ امام ابن مبارک رحمۃ اللہ علیہ نے یہ بھی فرمایا کہ میں اس کی بیان کی ہوئی روایت ناپسند کرتا ہوں۔ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
Flag Counter