Maktaba Wahhabi

347 - 413
لکھی جائے، جیسا کہ میزان میں ہے، اور تہذیب میں ہے کہ اس سے شعبہ رحمۃ اللہ علیہ نے روایت لی ہے اور آپ جانتے ہیں، شعبہ رحمۃ اللہ علیہ اسی سے روایت لیتے ہیں، جو ان کے نزدیک ثقہ ہوتا ہے ،اس حدیث سے ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور محمد رحمۃ اللہ علیہ نے استدلال کیا ہے اور مجتہد کا استدلال دلیل ہے کہ اس کے نزدیک اس کی کوئی اصل ہے۔‘‘ لیجئے جناب! یہ ہے نوح بن ابی مریم کے ثقہ اور قابلِ اعتماد ہونے کی دلیل۔ کس قدر تعجب کی بات ہے مولانا صاحب کو المیزان سے صرف ابن عدی کا قول ملا اور وہ بھی ادھورا، اس کے علاوہ کوئی قول ان کے نزدیک قابل اعتناء نہ ہوا۔ امام ابن عدی رحمۃ اللہ علیہ کا مکمل قول تو یوں ہے۔ ((عامۃ ما یرویہ لایتابع علیہ، وھو مع ضعفہ یکتب حدیثہ)) [1] ’’اس کی عموماً روایات میں اس کا کوئی متابع نہیں اور ضعف کے باوجود اس کی احادیث لکھی جائیں۔‘‘ امام ابن عدی رحمۃ اللہ علیہ نے جو روایات ذکر کی ہیں ان میں ایک وہ روایت ہے جس کو قابلِ اعتبار بنانے کے مولانا صاحب درپے ہیں اور وہ یہ ہے۔ ((من ترک الصف الأول مخافۃ أن یؤذی مسلماً ضعف اللّٰه لہ أجر الصف الأول)) ’’جو پہلی صف اس لیے چھوڑتا ہے کہ کسی مسلمان کو تکلیف نہ ہو اللہ تعالیٰ اسے پہلی صف کا اجر عطاء فرماتے ہیں۔‘‘ مولانا عثمانی اس بات کے بھی معترف ہیں کہ ابن عدی رحمۃ اللہ علیہ راوی کے ترجمہ میں اس کی مناکیر ذکر کرتے ہیں۔ تبھی تو فرماتے ہیں: ((لم یذکر ابن عدی حدیث ’إلارکعتي الصبح‘ من مناکیرہ)) [2]
Flag Counter