Maktaba Wahhabi

344 - 413
لایکتب حدیثہ ولا یعتبربہ ولا یستشھد)) [1] ’’جس کے بارے میں چوتھے اور پانچویں درجہ کے الفاظِ جرح ہوں وہ ساقط ہے اس کی حدیث نہیں لکھی جائے گی نہ اعتباراً واستشہاداً لی جائے گی۔‘‘ مگر مولانا صاحب اپنے تسلیم شدہ اصول کے برعکس اس کی حدیث کو حسن کہتے ہیں۔ علاوہ ازیں ابن سعد، یعقوب بن سفیان، ابوداود، نسائی، ابنِ حبان اور عقیلی رحمۃ اللہ علیہم نے اسے ضعیف کہا ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے فیہ نظر، امام ابوزرعہ رحمۃ اللہ علیہ نے لیس بقوی اور امام ابوحاتم رحمۃ اللہ علیہ نے ضعیف الحدیث منکر الحدیث یکتب حدیثہ ولا یحتج بہ، ابن خزیمہ رحمۃ اللہ علیہ نے لا یحتج بہ، ابن معین رحمۃ اللہ علیہ سے ایک قول لیس بذاک القوی، اسی طرح امام احمد رحمۃ اللہ علیہ سے لیس بذاک بھی منقول ہے۔ ابن عدی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا: بعض روایات پر ثقات نے موافقت نہیں کی، الساجی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا: احادیثہ مناکیر[2] حافظ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’ ضعفوہ[3] ’’محدثین نے اسے ضعیف کہا ہے۔‘‘امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی متروک کہا ہے اور علامہ نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ضعیف بالاتفاق[4] علامہ نووی رحمۃ اللہ علیہ کے قول کی تائید علامہ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ کے قول سے بھی ہوتی ہے۔اس لیے اگر کسی نے اس کی طرف کذب کی نسبت نہیں کی تو کسی نے اسے نہ ثقہ کہا نہ ہی صدوق ۔ اس پر متروک، لیس بشیء، فیہ نظر، منکر الحدیث کے الفاظ سے جرح تو منقول ہے۔ یہاں یہ بات بھی عرض ہے کہ عبد الرحمن بن اسحاق پر کذب کی نسبت نہیں تو کیا محمد بن حمید الرزای ،جابر جعفی ،سلیمان شاذکونی اور محمد بن ابراہیم بن زیادوغیرہ کی طرف کذب کی نسبت ہے یا نہیں؟ اس کا پاس ولحاظ کس قدر ہے؟ 2 فرمایا گیا کہ ’’ضعفِ حفظ کی بنا پر تضعیف کی گئی ‘‘ یہ تو جرح مفسر ہوئی۔ اب اگر اس کی توثیق ہو تو وہ بھی قابلِ اعتناء نہیں جیسا کہ خود مولاناصاحب نے قواعدفی علوم الحدیث[5]
Flag Counter