Maktaba Wahhabi

345 - 413
میں کہا ہے۔ 3 اس کا حال ابن ابی لیلی رحمۃ اللہ علیہ اور ابن لھیعہ رحمۃ اللہ علیہ جیسا ہے۔ یہ بالکل غلط ہے۔ انھیں سيء الحفظ کے ساتھ صدوق کہا گیا ہے عبد الرحمن الکوفی کو تو کسی نے صدوق نہیں کہا۔ 4 امام بزار رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: اس کی حدیث حافظ کی حدیث کی طرح نہیں۔ اس میں بھی تو اس کے سوء حفظ کا اشارہ ہے توثیق نہیں۔ 5 العجلی رحمۃ اللہ علیہ نے ’ضعیف جائز الحدیث یکتب حدیثہ‘ کہا ہے۔ یہ تو گویا ایسا جائز الحدیث ہے کہ ضعیف ہے اور اس کی حدیث لکھنے کے قابل ہے، استدلال واحتجاج کے نہیں۔ امام العجلی رحمۃ اللہ علیہ کے مقابلے میں امام احمد رحمۃ اللہ علیہ اور امام ابن معین رحمۃ اللہ علیہ کی جرح کاتو تقاضا ہے کہ اس کی حدیث لکھنے کے بھی قابل نہیں۔ امام ابن معین رحمۃ اللہ علیہ نے متروک اور لیس بشیء کے علاوہ ’’ضعیف‘‘ بھی کہا ہے۔ اور خود مولانا صاحب نے تدریب الراوی سے ان کا قول نقل کیا ہے۔ ((وإذا قلت ھو ضعیف، فلیس بثقۃ لایکتب حدیثہ)) [1] ’’جب میں کہوں کہ وہ ضعیف ہے تو وہ ثقہ نہیں اس کی حدیث نہ لکھی جائے۔ ‘‘ ہماری ان گزارشات سے واضح ہو جاتا ہے کہ عبد الرحمن الواسطی الکوفی ضعیف ہے وہ اس قابل نہیں کہ اس کی حدیث کو حسن اور قابلِ استدلال قرار دیا جائے۔ متن کے علاوہ حاشیہ میں بھی اس کو حسن بنانے کے لیے فرمایا گیا ہے کہ ’’خطبہ کنز العمال میں ہے کہ مسند کی تمام روایات مقبول ہیں۔‘‘ اس سہارے کی بے سہارگی اور بے چارگی ہم اوائل میں بیان کر آئے ہیں۔ رہی یہ روایت تو یہ ایسی ’’مقبول ‘‘ ہے کہ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ ہی اس کے راوی کو ’لیس بشی‘ کہتے ہیں۔ مزید فرمایا گیا ہے کہ عبد الرحمن کے ضعف کا حل العجلی
Flag Counter