Maktaba Wahhabi

327 - 413
مطابق بالآخر اس کی حدیث کو حسن قرار دیا جا سکے اور حسن قرار دیا بھی ہے۔ 2. فرمایا گیا کہ کچھ حفظ کی کمزوری کی بنا پر لوگوں نے ضعیف کہا ہے۔ ’لشیء من حفظہ‘ جبکہ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’ترک الناس حدیثہ‘ ’’لوگوں نے اس کی حدیث ترک کر دی ہے۔‘‘ کیا جس کے حفظ میں کچھ کمزوری ہو وہ متروک ہوتا ہے؟ ابن معین رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’لیس بشیء ولایکتب حدیثہ‘ ’’وہ کچھ نہیں اس کی حدیث لکھنے کے قابل نہیں۔ نتیجہ یہی کہ وہ متروک ہے۔ فلاس رحمۃ اللہ علیہ ، علی بن الجنید الازدی رحمۃ اللہ علیہ نے اسے متروک کہا۔ ابنِ حبان رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں: رديء الحفظ (کچھ حفظ کی کمزوری نہیں)بلکہ اس کا حافظہ ردی بے کار تھا۔ اس کی کتابیں ضائع ہو گئیں زبانی حدیثیں بیان کرنے لگا تو کثرت مناکیر کا شکار ہو گیا۔ ابن مہدی ، ابنِ مبارک، قطان اور ابن معین رحمۃ اللہ علیہم نے اسے ترک کر دیا تھا۔امام ابوزرعہ رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اسے متروک کہا ہے۔ امام دارقطنی رحمۃ اللہ علیہ نے یہ بھی فرمایا کہ: ابن عیینہ ،یحییٰ قطان اور عیسی بن یونس رحمۃ اللہ علیہم اس کے پاس بیٹھے ہیں اور اس کی خبر معلوم کر کے اسے ترک کر دیا تمھارے لیے رجال کے بارے میں ان کا علم کافی ہے۔[1] اسی متروک کو حضرت عثمانی ’’مختلف فیہ‘‘ کہتے ہیں، جبکہ امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’متروک الحدیث بلا خلاف أعرفہ بین أئمۃ النقل فیہ‘ ’’میں تو یہ جانتا ہوں کہ ائمہ نقل کے مابین اس کے متروک الحدیث ہونے میں کوئی اختلاف نہیں۔‘‘ امام الساجی رحمۃ اللہ علیہ ، جن کا قول حضرت شیخ الحدیث صاحب نے ذکر کیا، کافرمان ہے:’ صدوق منکر الحدیث أجمع أھل النقل علی ترک حدیثہ عندہ مناکیر‘ ’’وہ صدوق منکر الحدیث ہے ،اہلِ نقل کا اس کے ترک پر اجماع ہے اس کے پاس مناکیر ہیں۔‘‘[2] اسی بنا پر حافظ ابنِ حجر رحمۃ اللہ علیہ نے تقریب میں اسے متروک کہا ۔ جس کا اعتراف مولانا صاحب کو بھی ہے،مگر یہاں وجوب وتر کی ایک روایت اس سے بھی مروی ہے اس لیے وہ اب حسن الحدیث ہے اور ’’مختلف فیہ ‘‘ ہے۔
Flag Counter