Maktaba Wahhabi

326 - 413
’’العرزمی کا نام محمد بن عبید اللہ ہے وہ متروک ہے جیسا کہ تقریب میں ہے۔‘‘ جس میں اس حقیقت کا اعتراف ہے کہ حجاج متروک سے بھی تدلیس کرتے تھے اور محمد بن عبید اللہ العرزمی متروک ہے۔ اس کے برعکس اب یہ بھی دیکھئے کہ اسی العرزمی کی امام دارقطنی رحمۃ اللہ علیہ نے یہ روایت بیان کی ہے کہ ’إن اللہ زاد کم صلاۃ فأمرنا بالوتر‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے تمھارے لیے ایک نماز کا اضافہ کیا ہے تو آپ نے ہمیں وتر پڑھنے کا حکم فرمایا۔‘‘امام دارقطنی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ہے کہ محمد بن عبید اللہ العرزمی ضعیف ہے۔ مولانا صاحب اس کے دفاع میں فرماتے ہیں: ’’بلکہ وہ مختلف فیہ ہے۔ لوگوں نے اسے اس کے کچھ حفظ کی بنا پر ضعیف کہا ہے، امام وکیع رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ہے: وہ صالح انسان ہے، اس کی کتابیں ضائع ہو گئی تھیں۔ اسی بنا پر اس سے منکر روایات روایت ہوئی ہیں۔ الساجی رحمۃ اللہ علیہ نے اسے صدوق منکر الحدیث کہا ہے، اس سے ثوری، شریک اور شعبہ رحمۃ اللہ علیہم نے روایت لی ہے اور شعبہ رحمۃ اللہ علیہ ثقہ سے ہی روایت لیتے ہیں۔ جیسا کہ تہذیب[1] میں ہے۔ اس سے ہمارے امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ امام اعظم نے بھی روایت لی ہے اور ان کے تمام شیوخ ہمارے نزدیک ثقہ ہیں لہٰذا حدیث حسن ہے اور استشہاد کے قابل ہے بالخصوص العرزمی کا متابع مسند امام احمد رحمۃ اللہ علیہ میں ہے جس میں عمروبن شعیب سے حجاج بن ارطاۃ روایت کرتے ہیں جیسا کہ نصب الرایہ میں ہے، اور ہم نے کئی بار ذکر کیا ہے کہ حجاج حسن الحدیث ہے۔‘‘[2] العرزمی کی حدیث کواسکے علاوہ بھی حسن کہا گیا ہے۔[3] یہاں چند باتیں قابلِ غور ہیں۔ 1. آپ مولانا موصوف کا پہلے یہ اعتراف واقرار بحوالہ تقریب پڑھ آئے ہیں کہ محمد بن عبید اللہ العرزمی متروک ہے،مگر یہاں وہ’’مختلف فیہ‘‘ قرار پایا ہے تاکہ اپنے اصول کے
Flag Counter