Maktaba Wahhabi

293 - 413
میں شمار کیا ہے۔ اور النکت میں ان کی توضیحات اس پر مستزاد ہیں۔ فتح الباری میں بھی جابجا فرمایا ہے : ’المرسل ضعیف لاحجۃ فیہ[1] اور التلخیص[2] میں تو بالتصریح کہا ہے کہ ’مراسیل الزہری ضعیفۃ‘ کہ مراسیل زہری ضعیف ہیں اس لیے یہ کہنا کہ امام زہری رحمۃ اللہ علیہ کی مراسیل حافظ ابنِ حجر رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک ضعیف نہیں۔ قطعاً غلط ہے۔اور فتح الباری کے محولہ صفحہ پر تنہا مرسل زہری پر اعتماد نہیں،بلکہ قیاس اس کا مؤید ہونے کے ناطے انھوں نے اسے قبول کیا ہے۔لہٰذا یہ کہنا کہ ان کے نزدیک مرسل زہری ضعیف نہیں۔ دن کو رات کہنے کے مترادف ہے۔علامہ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ تو مراسیل زہری کو معضل کے حکم میں سمجھتے ہیں اور فرماتے ہیں: کہ جو ان کی مراسیل کو سعید بن المسیب اور عروہ کی مرسل کی مانندکہتے ہیں۔ ’فانہ لایدری مایقول‘ ’’اسے معلوم ہی نہیں کہ وہ کیا کہہ رہا ہے۔‘‘[3] اسی طرح یہ کہنا کہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ بھی اسے حجت قرار دیتے ہیں، یہ بھی محض اس لیے کہ یہاں ان کی بیان کی ہوئی مرسل احناف کی بھی مؤید ہے ورنہ یہ مسئلہ تو اظھر من الشمس ہے کہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ مرسل کی حجیت کے قطعاً قائل نہیں حتی کہ انھوں نے تو صراحۃً امام زہری رحمۃ اللہ علیہ کی مراسیل کو یہ کہہ کر رد کر دیا ہے کہ ((فلما أمکن فی ابن شہاب أن یکون یروی عن سلیمان مع ما وصفت بہ ابن شہاب لم یؤمن مثل ھذا علی غیرہ)) [4] ’’جب ابن شہاب زہری رحمۃ اللہ علیہ سے یہ ممکن ہے کہ وہ سلیمان بن ارقم سے روایت کرتے ہیں ، اس کے باوصف جو میں نے ان کے اوصاف بیان کیے ہیں تو کسی اور سے اس قسم کے راویوں سے روایت کرنے کے بارے میں اطمینان کیونکر ہو سکتا ہے۔‘‘
Flag Counter