Maktaba Wahhabi

221 - 413
سے ذکر کی ۔ جسے امام احمد رحمۃ اللہ علیہ اور بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے روایت کیا ہے اور علامہ العلقمی نے اس پر صحت کی علامت لگائی ہے چنانچہ حضرت موصوف کے الفاظ ہیں: ((أوردہ فی العزیزی عن أنس مرفوعاً بہ، وعزاہ إلی الإمام أحمد والبیہقی، ثم قال العلقمی: بجانبہ علامۃ الصحۃ)) [1] تعجب ہے کہ حضرت مولانا نے پہلے حضرت سمرۃ رضی اللہ عنہ کی روایت کنز العمال سے صفحہ کی تعیین کے ساتھ نقل کی، اور بزعم خویش اس کی تصحیح کی کوشش کی، پھر انھوں نے’’العزیزی‘‘ کی طرف زحمت اٹھائی اور حضرت انس رضی اللہ عنہ کی روایت کا اشارہ کر کے العلقمی سے اس کی تصحیح نقل کی، حالانکہ حضرت انس رضی اللہ عنہ کی یہ روایت کنز العمال میں اسی صفحہ پر موجود ہے۔ اس کی طرف انھوں نے التفاف نہیں فرمایا۔ آخر کیوں؟ اس حکمتِ عملی پر ہم کچھ عرض کریں گے تو شکایت ہو گی۔ اس کے بعد حاشیہ میں مجمع الزوائد سے حضرت انس رضی اللہ عنہ کی حدیث بحوالہ البزار نقل کی اور علامہ ہیثمی رحمۃ اللہ علیہ نے جو اس کے بارے میں فرمایا تھا کہ ’’امام بزار رحمۃ اللہ علیہ کے شیخ ہارون بن سفیان رحمۃ اللہ علیہ کا ترجمہ میں نے نہیں پایا، اس کے علاوہ اس کے باقی راوی الصحیح کے راوی ہیں۔‘‘ اس کے جواب میں فرمایا ہے: ((لایضرنا عدم وجدانہ بعد تصحیح العلقمی للحدیث)) [2] ’’اس کا ترجمہ نہ ملنا العلقمی کی تصحیح کے بعد ہمارے لیے نقصان کا باعث نہیں۔‘‘ ہمیں بھی اس کی ضرورت نہیں کہ ہارون بن اسحاق کون ہے۔ کیونکہ مسند احمد اور بیہقی میں یہ اس کے واسطہ سے نہیں۔ بلکہ یہاں اصل مسئلہ یہ ہے کہ یہ روایت یحییٰ بن اسحاق عن حماد بن سلمۃ عن قتادۃ عن أنس کی سند سے ہے۔ امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ اس میں یحییٰ بن اسحاق رحمۃ اللہ علیہ منفرد ہے۔[3] اور امام بزار رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ہے: ((لایروی عن أنس إلا من ھذا الوجہ وأظن یحیی أخطأ فیہ )) [4]
Flag Counter