Maktaba Wahhabi

220 - 413
یخرجاہ لما وصفہ أبو مسہر من سوء حفظہ ومثلہ لاینزل بھذا القدر)) [1] ’’سعید بن بشیر اپنے زمانہ میں اہلِ شام کے امام تھے ،مگر شیخین (امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ ومسلم رحمۃ اللہ علیہ ) اس کی حدیث نہیں لائے کیونکہ ابو مسہر رحمۃ اللہ علیہ نے اس کا حافظہ کمزور قرار دیا ہے۔ اور اس جیسے کی حدیث صحت سے کم نہیں۔‘‘ حالانکہ تہذیب اور میزان الاعتدال میں ہے کہ ابو مسہر رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: ہماری جماعت میں اس سے زیادہ حافظہ والا کوئی نہیں،مگر وہ ضعیف اور منکر الحدیث ہے۔ ان کے الفاظ ہیں۔ ((لم یکن فی جندنا أحفظ منہ وھو ضعیف منکر الحدیث)) اس سے تو معلوم ہوتا ہے کہ امام ابو مسہر رحمۃ اللہ علیہ نے اس کے حافظہ کی تعریف کی ہے لیکن اس کے باوجود اسے ضعیف منکر الحدیث قرار دیا ہے ۔امام ابومسہر رحمۃ اللہ علیہ کا سعید کو منکر الحدیث کہنا غالباً اس سے امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ نے سمجھا ہے کہ انھوں نے سعید کا حافظہ کمزور قرار دیا ہے۔ اس سے امام ابنِ حبان رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ کی تائید ہوتی ہے کہ سعید بن بشیر پر جرح حافظہ کی کمزوری کے باعث ہے اور یہ جرح مفسر ہے اس لیے تعدیل معتبر نہیں۔ اسی لیے شیخین نے بھی اس سے روایت نہیں لی اور اسی سے اس قول کی حقیقت بھی واضح ہو جاتی ہے جو مولانا عثمانی مرحوم نے سعید کی توثیق کے حوالے سے امام ابن عیینہ رحمۃ اللہ علیہ سے نقل کیا ہے کہ ’کان حافظاً‘ ’’وہ حافظ تھا‘‘ ان کے حافظ ہونے کا انکار نہیں،مگر اس کو توثیق مستلزم نہیں۔ ورنہ ابو مسہر اسے ضعیف اور منکر الحدیث نہ کہتے۔ مولانا صاحب نے یہاں مسند بزار کی اس روایت کے بارے میں یہ بھی فرمایا ہے کہ اس کا شاہد حضرت انس رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث مولانا صاحب نے اولاً: تومتن میں العزیزی کے حوالے
Flag Counter