Maktaba Wahhabi

131 - 413
ہے۔[1] اور یہ روایت بھی عمرو بن دینار سے ہے۔ امام ابنِ حبان رحمۃ اللہ علیہ کا اس کی عمروبن دینار سے روایات پر حکم بھی اس کا مؤید ہے اس لیے امام ابن عدی رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے دفاع بھی درست نہیں۔ علامہ زیلعی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی متعدد مقامات پراس کا متروک ہونا نقل کیا ہے۔[2] رہی بات کہ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی حدیث کو حسن کہا ہے۔تو یہ ابراہیم کی توثیق کو مستلزم نہیں۔ پہلے گزر چکا ہے کہ خود حضرت عثمانی نے فرمایا ہے کہ ترمذی متساہل ہیں اور حسن کہنے میں ان کی خاص اصطلاح ہے وہ متابعت یا شواہد کی وجہ سے بھی روایت کو حسن کہتے ہیں۔ جب یہ دونوں باتیں ان کے ہاں مسلّمہ ہیں تو حسن کہنے کی وجہ سے ابراہیم کی توثیق سمجھنا کیونکر درست ہے؟ بالخصوص جبکہ انھوں نے ذکر کیا ہے کہ حافظہ کی کمزوری کے باعث اس میں کلام ہے۔ اسی طرح علامہ منذری رحمۃ اللہ علیہ کے کلام سے اسی نوعیت کا استدلال بھی محلِ نظر ہے۔ چنانچہ علامہ منذری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے: ((واہ وقد وثق، وقال البخاری سکتواعنہ، قال ابن عدی یکتب حدیثہ وحسن لہ الترمذی)) غور فرمائیں علامہ منذری رحمۃ اللہ علیہ نے دو باتیں فرمائی ہیں’’واہ‘‘ اور ’وقد وثق‘ پہلی بات کے لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ سیجبکہ دوسری بات کے لئے ابن عدی رحمۃ اللہ علیہ اور امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ سے ثبوت لائے ہیں۔ یوں یہ راوی’مختلف فیہ‘ ہے۔ توثیق کے لیے’وثق‘ مجہول کا صیغہ لائے جو بذات خود اس موقف کے ضعف کی طرف اشارہ ہے۔ جبکہ ضعف بیان کرنے کے لیے ’واہ‘ کا لفظ استعمال کیا جو راوی کے بہر حال ضعیف ہونے پر دال ہے اور امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ سے ’سکتواعنہ‘ نقل کر کے اس ضعف کی سنگینی کی طرف اشارہ کر دیا۔ اس
Flag Counter