Maktaba Wahhabi

132 - 413
لیے اس سے یہ کیونکر ثابت ہوا کہ علامہ منذری رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک وہ راوی حسن الحدیث ہے جیسا کہ عثمانی صاحب باور کروارہے ہیں۔ علاوہ ازیں الترغیب والترہیب میں راوی اور روایت کی پوزیشن اور ہوتی ہے جبکہ احکام میں وہ نوعیت نہیں ہوتی۔ اس لیے یہ سہارا بھی اصولاً درست نہیں۔ پھر مولانا عثمانی نے محدثین کے برعکس یہاں اپنے اصول کا سہارا تو لے لیا مگر الفاظ جرح و تعدیل میں جو اصول خود انھوں نے قبول کیا ہے اس کی پاسداری کیوں نہیں؟ جبکہ انھوں نے کہا ہے کہ راوی پر جرح متہم بالکذب، متروک ترکوہ ہو اور امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ بالخصوص جب ’ سکتواعنہ‘ کہیں تو وہ راوی ساقط الاعتبار ہوتا ہے اور اس کی حدیث نہ لکھی جائے گی نہ ہی اس سے استشہاداً روایت قبول کی جائے گی۔[1] کیا ان تمام الفاظ سے ابراہیم پر جرح نہیں؟ اور متاخرین نے بھی اسی جرح (متروک) کو متعین نہیں کیا؟ تو اس کے بعد اس کا انکار محض مسلکی حمیت پر مبنی نہیں تو اور کیا ہے؟ امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ نے معرفۃ علوم الحدیث[2] میں ان اسانید کا ذکر کیا ہے جو ’أوھی الأسانید‘ تمام اسانید سے کمزور شمار کی گئی ہیں ۔ اس بحث کے ضمن میں لکھتے ہیں: (( أوھی أسانید المکیین عبد اللّٰه بن میمون القداح عن شھاب بن خراش عن إبراہیم بن یزید الخوزی عن عکرمۃ عن ابن عباس)) یہی بات اصول کی دیگر کتب میں بھی مذکور ہے ملاحظہ ہو تدریب الراوی [3]، فتح المغیث ۔ غور فرمائیے یہ سند تو اوھی الاسانید قرار پائے جبکہ اس میں’’واہ‘‘ راوی عبد اللہ بن میمون ہے اور ابراہیم الخوزی ہے جنھیں متروک قرار دیا گیا ہے،مگر ہمارے حضرت عثمانی اپنے حنفی اصولوں سے اسے حسن باور کروانے کے درپے ہیں۔ ابراہیم الخوزی کے علاوہ امام محمدتو ایوب، عتبہ، طلحہ بن عمرو، ابراہیم بن محمد بن ابی یحییٰ وغیرہ متکلم فیہ اور متروک راویوں سے بھی
Flag Counter