Maktaba Wahhabi

100 - 413
’’الساجی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ہے وہ سخی اور صالح آدمی تھا اس میں غفلت کی بنا پر حدیث میں وہم وخطأ ہو جاتی تھی، ایوب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: کہ ہم اسے ایک زمانے سے خیر کے ساتھ پہچانتے ہیں۔ مالک بن دینار رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: وہ قراء کا طاؤس تھا۔ ابن عدی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں: وہ عمداً جھوٹ نہیں بولتا، اس پر اشتباہ ہوتا تو غلطی کرتا وہ صدق کی بجائے ضعف کے زیادہ قریب ہے ابو زرعۃ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: وہ عمداً جھوٹ نہیں بولتا وہ حضرت انس ،شھربن حوشب اور حسن بصری سے حدیث کا سماع کرتا اور ان کے مابین کوئی تمیز نہیں کرتا تھا۔ ابو حاتم رحمۃ اللہ علیہ نے کہا وہ صالح آدمی تھا لیکن سوء حفظ کا شکار ہو گیا تھا۔ بلکہ حافظ طلحہ بن محمد رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی حدیث کوحسن کہا ہے۔‘‘[1] اب ذرا حقیقت حال دیکھئے مولانا موصوف نے اپنے کمال علم وفضل کے باوصف امام الساجی رحمۃ اللہ علیہ کا ایک قول تہذیب [2] سے نقل کیا جبکہ اسی تہذیب[3] میں یہ بھی ہے :’متروک الحدیث وھو صالح‘ اس لیے اس کے صالح اور سخی ہونے سے اس کی توثیق نہیں ہو تی اور وہ اسے خطأ ووہم سے منسوب کرنے کے علاوہ صراحتاً متروک الحدیث بھی قرار دیتے ہیں۔ لہٰذا اس کا ’’متروک الحدیث‘‘ ہونا کس حقیقت کا غماز ہے؟ امام ایوب رحمۃ اللہ علیہ کا قول اس کے نیک اور صالح ہونے سے اور امام ابن دینار رحمۃ اللہ علیہ کا قول قراء ۃ میں اس کی توصیف سے ہے اسے توثیق پر محمول کرنا نقد روایت کا خون کرنے کے مترادف ہے۔ امام ابنِ عدی رحمۃ اللہ علیہ کا قول بھی اسی پر دال ہے کہ وہ ضعیف ہے صدوق بہر حال نہیں۔’ھو بیّن الأمر فی الضعف‘ ’’اس میں ضعف ہونا بین ہے۔‘‘امام ابو زرعہ رحمۃ اللہ علیہ نے اگرچہ تعمداً اس سے کذب کی نفی کی ہے،مگر فرمایا ’ترک حدیثہ‘ اس کی حدیث ترک کر دی جائے۔ کیا اس کے بعد بھی ان کے کلام سے تحسین ثابت کرنا انصاف پر مبنی ہے؟ امام ابو حاتم رحمۃ اللہ علیہ نے اس ’’صالح‘‘ کو سوء حفظ ہی سے متھم نہیں کیا بلکہ اسے متروک الحدیث بھی کہا ہے۔[4] افسوس یہ
Flag Counter