Maktaba Wahhabi

101 - 413
الفاظ بھی حضرت صاحب نے ذکر کرنے سے گریز کیا ہے۔ ان کے علاوہ اما م احمد ،امام ابن معین اور امام شعبہ رحمۃ اللہ علیہم نے تو صراحۃً فرمایا ہے کہ وہ کذاب ہے۔ امام ابو زرعہ رحمۃ اللہ علیہ نے تعمداً جھوٹ بولنے کی نفی کی ہے ،تو ان کے مقابلے میں ان ائمہ کی بات ہی مقدم ہے۔ قاعدہ کی بات ہے من علم حجۃ علی من لم یعلم متعدد ائمہ جرح وتعدیل نے اسے متروک کہا ہے اور حافظ ابنِ حجر رحمۃ اللہ علیہ کا تقریب [1] میں بھی فیصلہ اسی بنا پریہی ہے کہ وہ متروک ہے۔ امام الساجی رحمۃ اللہ علیہ اور ابو حاتم رحمۃ اللہ علیہ نے بھی صالح کہنے کے باوجود متروک ہی کہا ہے ۔ لہٰذا جب اسے متروک اور کذاب متعدد محدثین نے کہا اور ان کے مقابلے میں کوئی قابلِ اعتبار توثیق کا جملہ بھی نہیں تو اس کے بارے میں حضرت موصوف کا فرمانا کہ ’’وہ ضعیف[2] ہے اور شاہد یا متابعت کی بنا پر اس کی حدیث درجہ حسن تک پہنچ جاتی ہے اور شائد حافظ طلحہ بن محمد رحمۃ اللہ علیہ نے اسی لیے اس کی سند کو حسن کہا ہے۔‘‘[3] حالانکہ جس راوی کو متروک قرار دیا گیا ہو اس کی روایت تو متابعۃً واعتباراً بھی قابل قبول نہیں۔ جیسا کہ مولانا عبد الحی لکھنوی رحمۃ اللہ علیہ نے الرفع والتکمیل میں تفصیلاً ذکر کیا ہے۔[4] یہی وجہ ہے کہ امام احمد، امام نسائی اور امام ابوداود رحمۃ اللہ علیہم نے فرمایا ہے اس کی حدیث لکھی ہی نہ جائے، چہ جائے کہ اسے حسن قرار دیا جائے۔ اسی طرح حافظ طلحہ بن محمد رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں کہنا کہ انھوں نے شاہدومتابعت کی بنا پر اس کی حدیث کو حسن کہا ہے تو عرض ہے کہ انھوں نے تواس کے نہ کسی شاہد اور نہ ہی متابعت کی طرف اشارہ کیا بلکہ یہ فرمایا ’رواہ جماعۃ عن ابان بن ابی عیاش ‘ ’’ کہ ایک جماعت نے اسے ابان سے روایت کیا ہے۔‘‘اس لیے مولانا صاحب کا حافظ طلحہ رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں یہ ظن بھی محض ظن باطل ہے۔
Flag Counter