نہیں کہ وہ مسائل میں قولِ غیر کو قبول کر لے۔یاد رہے محقق علماء نے اگرچہ ایسے انسان کے لیے اس کی جہالت کی وجہ سے تقلید کو جائز قرار دیا ہے۔ لیکن اس شرط کے ساتھ کہ وہ کسی خاص مذہب کی اس انداز میں تقلید نہ شروع کر دے کہ دوسرے مذاہب سے وابستہ علماء کی بات کو غلط سمجھے۔ تقلیدِ شخصی کے وجوب پر قوی یا ضعیف کوئی دلیل نہیں ہے۔ لیکن یہ بات ہر زمانہ میں ہر جاہل کو میسر آ سکتی ہے کہ وہ کسی عالم سے کہے کہ آپ اس مسئلہ میں کتاب و سنت یا آثارِ صحابہ رضی اللہ عنہم کی روشنی میں میری راہنمائی فرمائیں۔ لہٰذا اسے خواہ مخواہ اختلاف و شبہات میں پڑنے اور یہ کہنے کی ضرورت ہی نہیں کہ اس مسئلہ میں مجھے فلاں امام کا فتویٰ بتا دیں۔ ممکن ہے یہ بات پہلے میسر نہ ہو۔ لیکن آج تو ہر عامی کو ہر شہر میں اور ہر قریہ میں میسر ہے۔ کیونکہ آج کل فقہ السنۃ کے فروعی اور اصولی مسائل پر مشتمل رسالے اُردو میں بھی لکھے جا چکے ہیں۔ جن سے ہر حرف شناس فائدہ اُٹھا سکتا ہے۔
یہ اعتراض بالکل بے بنیاد اور باطل ہے کہ ان رسائل پر عمل کرنا ان کے مصنفین کی تقلید کے مترادف ہے اور ان کی تقلید کے بجائے ائمہ مجتہدین کی تقلید بہر آئینہ بہتر ہے۔ کیونکہ دلیل کو تسلیم کرنا اور ثقہ راویوں سے روایت قبول کرنا، اہلِ علم و عقل کے نزدیک تقلید نہیں۔ تقلید تو غیر کی رائے کو قبول کرنے کا نام ہے۔ شارع کی روایت قبول کرنے کو تقلید نہیں کہا جا سکتا۔ یہ فقط ابلیس کا ایک مغالطہ ہے اور اِس دامِ تلبیس میں ایک جہان کو مبتلا کر کے اس نے صراطِ مستقیم سے گمراہ کر دیا ہے۔ سوچنے کی بات ہے کہ کتب و رسائل کے مصنف کتاب و سنت سے دلائل نقل کرتے ہیں۔ اور وہ بھی ان علماء کی کتابوں کے حوالہ سے جو علومِ روایت کے حامل، سنت کے محافظ اور صحیح و غلط کے درمیان بخوبی تمیز کرنے والے تھے۔ وہ نہ اپنااجتہاد ذکر کرتے ہیں اور نہ اپنی رائے کا اظہار۔ لہٰذا ان کتب و رسائل
|