بحمدہٖ تعالیٰ میرے وطن میں میری عزت و جاہ، رؤساء اہل علم و دولت کی طرح اب تک باقی ہے۔ میں اپنے نانا کے گھر شہر بانس بریلی میں پیدا ہوا تھا، پھر والد کے انتقال کے بعد ایک مرتبہ والدہ کے ہمراہ وہاں گیا، تب سے اب تک پھر جانا نہ ہوا۔ والد مرحوم کی قبر خاص قنوج کے محلہ شیخوپورہ میں ہے، برادر کلاں کی قبر گجرات کے شہر بڑودہ میں ہے۔ والدہ، ہمشیرہ کلاں اور خواہر وسط کی قبریں بھوپال کے مدار المہام مرحوم کے باغ کے متصل ہیں۔ نہیں معلوم کہ میری گور کہاں ہو گی۔ ﴿ فَامْشُوا فِي مَنَاكِبِهَا وَكُلُوا مِن رِّزْقِهِ﴾ [1]
اب میرا موطن وہ شہر ہے، جو اس آیت کے مصداق ہے:
﴿ سَأُرِيكُمْ دَارَ الْفَاسِقِينَ ﴿١٤٥﴾﴾ [2]
’’عنقریب میں تم کو فاسقین کا گھر دکھاؤں گا۔‘‘
یہ وہ جگہ ہے جہاں علم مر جاتا ہے۔ عالم مردار سے زیادہ خوار رہتا ہے، اہل معرفت و صلاح تو شاید یہاں پہلے ہی سے کبھی پیدا نہیں ہوئے، اہل حسد کا اس جگہ بازار ہے۔ اہل نفاق کا ہر جگہ دربار ہے ؎
وَمَنْزِلَةُ الْفَقِيْهِ مِنَ السَّفِهْهِ
كَمَنْزِلَةِ السَّفِيْهِ مِنَ الْفَقِيْهِ
اگرچہ ساری دنیا میں شہر کا خیر پر غلبہ رہتا ہے اور حکمتِ الٰہی کا یہی تقاضا ہے۔ لیکن اس شہر خاص میں کئی مرتبہ تجربہ ہوا کہ جس انسان میں جتنی ہنر مندی ہو گی۔ وہ یہاں اتنا ہی عیب دار ہو گا کہ عیب دار کو یہاں ہنر مند سمجھا جاتا ہے۔ سعدی رحمہ اللہ نے خوب کہا ہے:
’’دہ آدمی بر سفرہ بخورند و ودسگ برمرداری بسر نبرند عقل دردستِ نفس چناں گرفتار ست کہ مرد عاجز در دست زن کرپز۔‘‘
|