زمانہ کے حوادث اور آفات سر پر آتے ہیں۔ اس وقت نادم ہو کر آباؤ اجداد کی نصیحت کو یاد کرتا ہے۔ لیکن جب مال تباہ ہو جائے اور وقت ہاتھ سے نکل جائے تو ندامت کا کیا فائدہ ؎
صد حیف کہ ما پیرِ نود سالہ نبو دیم
روزے کہ رسیدیم بایامِ جوانی
یہ وہ وقت ہے کہ دین و آبرو کی حفاظت کے لیے اولاد کا نہ ہونا، اولاد کے ہونے سے بہتر ہے۔ لیکن مجبوری یہ ہے کہ انسان کے لیے تقدیر کے ساتھ جنگ کرنا اور کامیاب ہونا ممکن نہیں اور جو اولاد ناز و نعمت میں پرورش پاتی ہے، اسے عواقبِ امور کا کچھ تجربہ نہیں ہوتا۔ اور وہ معاملہ فہمی، کار گزاری اور مردم شناسی سے بہت دور ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
﴿ أَوَمَن يُنَشَّأُ فِي الْحِلْيَةِ وَهُوَ فِي الْخِصَامِ غَيْرُ مُبِينٍ ﴿١٨﴾﴾ [1]
’’کیا وہ جو زیور میں پرورش پائے اور جھگڑے میں بات واضح نہ کر سکے۔ (اس کو خدا کی بیٹی کہتے ہو)‘‘
پھر خدا نخواستہ ایسے ناعمین اور متنعین کو ذرا سی بھی تکلیف پہنچے تو اسے پہاڑ برابر جانتے ہیں۔ اور استقلال چھوڑ کر مضطرب الحال ہو جاتے ہیں۔ اور ہر شخص کو ظالم کہنے لگتے ہیں ؎
ناز پروردہ چوتابِ ستم عشق نداشت
یار را نام جفا پیشہ و بدکیش نہاد
مجھے اپنی اولاد میں سے دختر اور فرزندِ صغیر سے زیادہ محبت ہے کہ یہ کسی قدر میری رضا جوئی میں رہتے ہیں۔ یہ بات ان کے لیے دونوں جہانوں میں مفید ہے اس لیے کہ حدیث میں آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا مندی و
|