ہاں اتنی بات ضرور ہے کہ میں اس علم میں بھی کتاب و سنت کا پابند ہوں اور اس حال و قال کا معتقد اور قائل نہیں ہوں، جو نصِ کتاب یا دلیلِ سنت کے خلاف ہو، اور نہ ان رسومِ مشائخ کو جائز جانتا ہوں جو کسی بُرہان پر مبنی نہیں ہیں کیونکہ جس طرح تقلید فروع احکام میں بے اصل ہے، اسی طرح مکشوفات و رسوم میں بھی بے سند ہے۔ صوفیہ صافیہ میں سے کوئی شخص کسی خاص مذہب کا مقلد نہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ کہا گیا ہے:
((اَلصُّوْفِيُّ لَا مَذْهَبَ لَهٗ))
’’صوفی کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔‘‘
’’احیاء العلوم‘‘ اور ’’فتوحاتِ مکیہ‘‘ کو دیکھو کہ ان میں تقلید اختیار کرنے سے کس قدر تحذیر اور اتباع اختیار کرنے میں کس قدر تحریض ہے۔ سید الطائفہ حضرت جنید رحمہ اللہ نے جو یہ فرمایا ہے تو کوئی مبالغہ نہیں کیا ؎
((طَرِيْقَتُنَا هٰذِهِ مُقَيَّدَةٌ بِالْكِتٰبِ وَالسُّنَّةِ))
’’ہمارا یہ طریقہ کتاب و سنت کے ساتھ مقید ہے۔‘‘
سارے خلف و سلف مشائخ اسی قول و حال پر گزرے ہیں۔ بلکہ اکثر صوفیاء علم ظاہری میں ظاہری اشرب تھے۔ جیسے ابن عربی رحمہ اللہ وغیرہ اور بعض جو کسی مذہب کی طرف منسوب تھے تو وہ بھی بطریق تستر تھے، بطور تحقق نہیں جیسے جیلی رحمہ اللہ حنبلی کہلاتے تھے، تاکہ عامۃ الناس کے اعتراض سے محفوظ رہیں جو کہ جامد علی التقلید ہوتے ہیں۔ جنید رحمہ اللہ پر جب حقائقِ توحید کے بیان کی بابت اعتراض اور مواخذہ ہونے لگا تو وہ متستر بفقہ ہو گئے، اور سفیان ثوری رحمہ اللہ کے مقلد ہو کر فقیہ مشہور ہو گئے۔
تصوف و سلوک سے مراد مرتبہ احسان میں استقامت ہے نہ کہ کرامات اور کشوفات و رسوم کا اظہار کہ یہ نہ اصل مقصود ہیں، اور نہ وسائل مقصود، بلکہ
|