جنہیں دین میں مرتبہ امامت حاصل تھا، اور اعلیٰ درجہ کا تقویٰ رکھتے تھے، انہوں نے ہمیشہ ان مناصب کے اختیار کرنے سے احتراز کیا، اور ملوک و سلاطینِ اسلام کے تشدد اور تکلیف دہی کے باوجود ان خدمات کو قبول نہ کیا۔ اب جو کوئی سعی کر کے ایسے مراتب کا طالب ہوتا ہے، وہ یقیناً اہل دنیا ہے، اہلِ عقبیٰ نہیں!
میں اللہ سے اُمید رکھتا ہوں کہ مجھے ہمیشہ ایسی آفات سے محفوظ رکھے گا اور میری اولاد کو بھی اس طرح کی شہرت سے اور نقمت سے بچائے گا۔ تحصیلِ رزق کی اور بہت سی صورتیں ہیں۔ جو نفس الامر میں جائز ہیں بلکہ سچ تو یہ ہے کہ اس زمانہ میں ملازمت بھی بڑی ذلت کی چیز ہے۔ اگرچہ میں بحمداللہ اپنی ملازمت میں معزز رہا۔ اگر کسی مسلمان سے ہو سکے کہ وہ زراعت، کتابت یا تجارت وغیرہ سے اپنا کام چلائے تو پھر نوکری کو بھی سلام کر لے۔ جس کے پاس رزق سدِ رمق کے بقدر موجود ہو۔ اس کا کثرتِ مال کی ہوس کرنا، اپنی آخرت آپ برباد کرنا ہے۔
|