ہے، اے کاش! ان کی صحبت نصیب ہوتی اور اپنے زمانہ کے لوگوں کی صحبت سے بچ جاتا۔ اگرچہ ان کے احوال، اقوال، اعمال اور خصال کے تراجم اور حکایات کتب طبقات و سیر میں موجود ہیں اور ان کے ملاحظہ و مطالعہ سے ان کے اوقاتِ صالحات کی کیفیت معلوم ہو جاتی ہے۔ اور ان کے ملفوظات و کلماتِ طیبات میں ہنوز کسی قدر اثر و برکت باقی ہے، جس سے دل ان جیسے حالات کی تحصیل کی ہمت کرتا ہے۔ مگر عوائقِ دنیا کی وجہ سے محروم رہ جاتا ہے لیکن اہل اللہ اور اہل علم باللہ کی صحبت میں ایک نہایت سریع الاثر مخصوص برکتِ مؤثرہ ہوتی ہے، جو مجھ سے فوت ہو گئی ہے۔ ہم ایسے دَور میں آئے ہیں کہ دین پر ثابت قدم رہنا مشکل معلوم ہوتا ہے، مقاماتِ احسان و عرفان تو بہت دُور ہیں۔
((اَللّٰهُمَّ يَا مُقَلِّبَ الْقُلُوْبِ ثَبِّتْ قُلُوبَنَا عَلٰي دِيْنِكَ))
اس کے باوجود مجھے اللہ تعالیٰ سے اُمید ہے کہ میری مذکورہ لوگوں سے محبت آخرت میں نافع ہو گی
شنیدم کہ در روزِ اُمید و بیم
بداں رابہ نیکاں بنجشد کریم
اللہ، رسول اور اولیاء اللہ کی محبت نجاتِ آخرت کے لیے ایک اچھا وسیلہ ہے، مگر یہ محبت زبان سے نہیں بلکہ دل سے ہونی چاہیے۔ ایسی محبت مُحب کو محبوب تک پہنچا دیتی ہے۔
((اَلْمَرْءُ مَعَ مَنْ اَحَبَّ))
|