Maktaba Wahhabi

177 - 384
اور ’’لسان العرفان‘‘ وغیرہ۔ یہ بات ظاہر ہے کہ ہر عالم کی ہر کتاب کی شان ایک جیسی نہیں ہوتی۔ جو تصنیف طلبِ علم کے زمانہ کی ہو، یا فضیلت کے ابتدائی دور کی ہو تو وہ ناقص، غیر محقق اور اکثر طور پر رطب و یابس سے خلط ملط ہوتی ہے، اور جو تکمیلِ درس، مشاقی فن، ترقی مدارجِ علم، قوتِ مراتب فہم اور عبورِ تام کے بعد کی تصنیفات ہوتی ہیں۔ ان کی شان دوسری ہوتی ہے۔ اس بات میں سارے مؤلفینِ عالی شان یکساں ہی ہیں۔ حافظِ ابن حجر رحمہ اللہ کی بہت سی تصنیفات ہیں۔ مگر سب ایک رتبہ کی نہیں۔ انہوں نے خود اپنی بعض کتابوں کو مختار بتایا ہے۔ مثلاً ’’فتح الباری‘‘ اور ’’تلخیص الحبیر‘‘ وغیرہ باقی کو ضعیف القویٰ کہا ہے۔ امام غزالی رحمہ اللہ کی کتابوں میں سے ’’احیاء العلوم‘‘، اور ’’کیمیائے سعادت‘‘ سب سے بہتر ہے، اس کے باوجود ان پر تنقید کی گئی ہے۔ امام شوکانی رحمہ اللہ کی تالیفات میں سے نیل، سیل، وبل، دُررِ بہیہ، تفسیر اور ارشاد الفحول عمدہ اور اخذ و اعتماد کے لائق ہیں۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ کی تصنیفات میں سے ’’ازالۃ الخفاء‘‘، ’’فتح الرحمٰن‘‘ اور ’’حجۃ اللہ البالغۃ‘‘ عمدہ ہیں۔ باقی سب معمولی اور رسمی ہیں۔ تاہم فوائد زوائد سے وہ بھی خالی نہیں۔ نادان لوگ رطب و یابس میں امتیاز کے بغیر کبھی تو ہر شخص کی ہر تصنیف سے کسی مسئلہ ضعیف کی تصحیح یا بدعت کی تحسین کے لئے دلیل لاتے ہیں یا اعتراض کرتے ہیں کہ فلاں مسئلہ یا قول اس کی کتاب میں غلط و مردود لکھا ہے۔ یہ سچ ہے۔ لیکن اگر تالیف معتمد و نامعتمد اور تصنیف معتبر و نا معتبر میں امتیاز کے بعد
Flag Counter