Maktaba Wahhabi

359 - 534
العاص ہے جو تمہارے پاس آیا ہے۔ اس کا یہ زعم ہے کہ سواد کی سرزمین قریش کے غلاموں کا باغ ہے، حالاں کہ سواد تمہاری جائے پیدائش اور تمہارے نیزوں کا مرکز ہے، جو تمہارا وفادار ہو وہ تمہارے آباء و اجداد کا وفا دار ہے۔[1] مالک بن حارث جو اشتر کے لقب سے معروف ہے، فتنہ پرداز انسان ہے، یہ ان خوارج کے قائدین میں سے ہے جنھوں نے عثمان رضی اللہ عنہ کا محاصرہ کر کے ان کو قتل کیا تھا ان سے کوئی بعید نہیں کہ لوگوں کو متنفر کرنے کے لیے اس طرح کے اقوال گھڑیں، اگر یہ جملہ کہا گیا ہے تو اس کے کہنے والے وہ حضرات ہیں جنھوں نے خلافت کے خلاف خروج کیا تھا۔ عراق خصوصاً کوفہ پر مسلسل قریشی گورنروں کی تولیت کے سبب یہ بیمار تصور اور مریض فہم انہوں نے سمجھا حالاں کہ قبائلی عصبیت اس مقولہ کے اندر بالکل واضح ہے۔[2] امام ذہبی رحمہ اللہ سعید بن العاص رضی اللہ عنہ سے متعلق فرماتے ہیں: ’’آپ شریف امیر، سخی و جواد تھے، سبھی آپ کی تعریف کرتے، انتہائی بردبار اور باوقار تھے، حزم و عقل کے مالک تھے، خلافت و ولایت کے قابل تھے۔‘‘[3] مخالفین اور ناقدین عثمان رضی اللہ عنہ کا یہ کہنا کہ عثمان رضی اللہ عنہ نے سعید بن العاص رضی اللہ عنہ کو کوفہ کا گورنر مقرر کیا پھر ان سے ایسے امور سرزد ہوئے جس کی وجہ سے اہل کوفہ نے ان کو وہاں سے نکال باہر کیا،[4] تو یہ واضح ہونا چاہیے کہ صرف کوفیوں کا آپ کو وہاں سے نکال دینا اس بات کی دلیل نہیں کہ آپ سے کسی گناہ کا ارتکاب ہوا تھا، جو کوفہ اور کوفیوں کی تاریخ سے واقف ہیں وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ کوفی اکثر بلا کسی شرعی عذر اور معمولی اسباب کی وجہ سے امراء و والیان کی شکایت کرتے رہے ہیں، حتیٰ کہ عمر رضی اللہ عنہ کو بھی کہنا پڑا کہ کوفیوں نے مجھے تھکا دیا اور تنگ کر کے رکھ دیا، یہ کسی کو پسند نہیں کرتے اور نہ انہیں کوئی پسند کرتا ہے، نہ یہ درست ہوتے ہیں اور نہ ان پر کوئی درست ثابت ہوتا ہے۔[5] اور دوسری روایت میں یوں وارد ہوا ہے: کوفیوں نے مجھے تھکا دیا ہے اگر ان پر کسی نرم مزاج کو مقرر کرتا ہوں تو اس کو کمزور سمجھ بیٹھتے ہیں، اور اگر کسی سخت گیر کو مقرر کرتا ہوں تو اس کی شکایت کرتے ہیں۔[6] بلکہ آپ نے ان کے حق میں بد دعا کی: ((اللّٰهم انہم قد لبسوا علی فلبس علیہم۔))[7] ’’اے اللہ ان لوگوں نے میرے لیے مشکلات برپا کی ہیں، تو ان کے لیے مشکلات برپا کر۔‘‘
Flag Counter